کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 63
لَا یَصِحُّ ۔’’یہ روایت ثابت نہیں ہے۔‘‘
بعض احباب کہتے ہیں کہ لَا یَصِحُّ ’’یہ روایت صحیح نہیں ہے۔‘‘ سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ ’’حسن‘‘ بھی نہیں ہے، یہ ان کی بات خطائے محض کی قبیل سے ہے اور اس روایت پر توفٹ بھی نہیں آتی، کیوں کہ اس روایت کی تو سند ہی موجود نہیں ۔
دلیل نمبر 2 :
سیدنا خضر علیہ السلام سے منسوب ہے:
مَنْ قَالَ حِیْنَ یَسْمَعُ الْمُؤَذِّنَ یَقُوْلُ : أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدَ رَّسُوْلُ اللَّہِ : مَرْحَبًا بِحَبِیْبِي وَقُرَّۃِ عَیْنِي مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ یُقَبِّلُ إِبْہَامَیْہِ وَیَجْعَلُہُمَا عَلٰی عَیْنَیْہِ لَمْ یَرْمَدْ أَبَدًا ۔
’’جو شخص مؤذن سے أَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدَ رَّسُوْلُ اللّٰہِ کے الفاظ سن کر مَرْحَبًا بِحَبِیْبِي وَقُرَّۃِ عَیْنِي مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کہے، پھر دونوں انگوٹھے چوم کر آنکھوں پر رکھے، اس کی آنکھیں کبھی نہ دُکھیں گی۔‘‘
(المقاصد الحسنۃ للسّخاوي، ص 384)
بے سند وبے ثبوت ہے، حافظ سخاوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
بِسَنَدٍ فِیہِ مَجَاہِیلُ مَعَ انْقِطَاعِہٖ ۔