کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 61
مُجَانَبَۃُ الْغُلُوِّ الَّذِي ارْتَکَبَہُ النَّصَارٰی فِي عِیْسٰی، مَا رَضُوْا لَہٗ بِالنُّبُوَّۃِ حَتّٰی رَفَعُوْہٗ إِلَی الْإِلٰہِیَّۃِ وَإِلَی الْوَالِدِیَّۃِ، وَانْتَہَکُوْا رُتْبَۃَ الرُّبُوْبِیَّۃِ الصَّمَدِیَّۃِ، فَضَلُّوا وَخَسِرُوا، فَإِنَّ إِطْرَائَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُؤَدِّي إِلٰی إِسَائَۃِ الْـاَدَبِ عَلَی الرَّبِ، نَسْأَلُ اللّٰہَ تَعَالٰی أَنْ یَّعْصِمَنَا بِالتَّقْوٰی، وَأَنْ یَّحْفَظَ عَلَیْنَا حُبَّنَا لِلنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کَمَا یَرْضٰی ۔
’’تعظیم میں حد سے بڑھنا ممنوع ہے، جبکہ ادب اور توقیر واجب ہے۔ جب تعریف میں مبالغہ کا اشتباہ ہو، تو عالم کو توقف کرنا چاہیے اور رُک جانا چاہیے، نیز کسی بڑے عالم سے دریافت کرلے، تاکہ حق واضح ہو جائے، پھر وہ اس کے بارے میں بات کرے، ورنہ خاموشی بہتر ہے۔ اسے وہی توقیر کافی ہے،جسے بے شمار احادیث میں وضاحت سے بیان کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح غلوسے اجتناب کرے، جس کا ارتکاب نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں کیا۔وہ ان کی نبوت پر راضی نہیں ہوئے،بلکہ انہیں الہٰ اور اللہ کا بیٹا قرار دیا اور اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت وصمدیت میں نقب لگایا۔ یوں وہ گمراہ اورناکام ہوگئے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم میں حد سے بڑھنا اللہ کی گستاخی کی طرف لے جاتا ہے۔ ہم اللہ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ تقویٰ کی بدولت ہمیں بچالے اورجیسے اسے پسند ہے، ہمارے دلوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت راسخ فرمادے ۔‘‘
(میزان الاعتدال : 2/650)