کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 44
إِنَّمَا لَا یُنْھٰی عَنِ التَّلْقِینِ بَعْدَ الدَّفْنِ، لِأَنَّہٗ لَا ضَرَرَ فِیہِ، بَلْ فِیہِ نَفَعٌ ۔
’’دفن کے بعد تلقین سے منع اس لیے نہیں کیا گیا کہ اس میں کوئی نقصان نہیں ، بلکہ فائدہ ہے۔‘‘ (رد المُحتار : 1/797)
قارئین! آپ نے اہل علم کے اقوال ملاحظہ فرما لیے ہیں ۔ جو عمل شرعی دلیل سے ثابت نہ ہو اورعلمائے دین اسے بدعت قرار دیتے ہوں ،کیا اسے جائز قرار دینے کے لیے یہ دلیل کافی ہوجائے گی کہ اس سے منع نہیں کیا گیا؟کیا نماز جنازہ کی ایک سے زائد رکعات سے منع کیا گیا ہے؟
پھر اس پر بھی کیا دلیل ہے کہ بدعی تلقین میت کو نفع دیتی ہے؟دفن کے بعد میت کے حق میں ثابت قدمی کی دُعا سنت ہے ۔لیکن تلقین بالکل بھی سنت نہیں ہے۔
مفتی ٔدارالعلوم دیوبند، جناب عزیزالرحمن صاحب(1347ھ) سے سوال ہوا :
’’بعددفن کے تلقین کرناجائز ہے یا نہ؟ اگر جائز ہے تو کس طرح؟‘‘
جواب : ’’تلقین بعد الدفن کو فقہا نے جائز رکھاہے۔‘‘
(فتاویٰ دارالعلوم دیوبند : 5/392)
نہیں معلوم مفتی صاحب مرحوم نے کن فقہا کی طرف اشارہ کیا ہے؟ اسلاف امت تو ایسا کرتے نظر نہیں آئے۔
مولاناسرفراز خان صفدر صاحب لکھتے ہیں :
’’البتہ دفن کے بعد تلقین کرنا عند القبر(قبر کے پاس) ہے۔ مگر وہ تو ’وَالدُّعَائُ عِنْدَھَا قَائِمًا‘ (قبر کے پاس کھڑے ہو کر دُعا کرنے) کی مد