کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 42
’’میرا قلبی میلان تلقین کے عدم جوازکی طرف ہے۔‘‘ (الإنصاف في معرفۃ الرّاجح من الخِلاف : 2/549) 4.علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ)لکھتے ہیں : لَمْ یَکُنْ یَّجْلِسُ یَقْرَأُ عَنْدَ الْقَبْرِ، وَلَا یُلَقِّنُ الْمَیِّتَ، کَمَا یَفْعَلُہُ النَّاسُ الْیَوْمَ ۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرأت کرنے کے لئے قبر پرنہیں بیٹھتے تھے، نہ ہی اس زمانے کے لوگوں کی طرح(قبر پر)میت کو تلقین کرتے تھے۔‘‘ (زاد المَعاد في ھَدي خیر العِباد : 1/522) 5.حافظ سیوطی رحمہ اللہ (911ھ) لکھتے ہیں : ذَھَبَ جُمْھُورُ الْـأَئِمَّۃِ إِلٰی أَنَّ التَّلْقِینَ بِدْعَۃٌ ۔ ’’جمہور ائمہ کا مذہب ہے کہ (قبر پر)تلقین بدعت ہے۔‘‘ (الحاوي للفتاوی : 2/191) 6.فتاوی عالمگیری میں لکھاہے: أَمَّا التَّلْقِینُ بَعْدَ الْمَوْتِ، فَلَا یُلَقَّنُ عِنْدَنَا فِي ظَاھِرِ الرِّوَایَۃِ، کَذَا فِي الْعَیْنِيِّ شَرْحِ الْھِدَایَۃِ، وَمِعْرَاجِ الدِّرَایَۃِ ۔ ’’ظاہر روایت کے مطابق بعد المرگ تلقین درست نہیں ، جیسا کہ علامہ عینی کی شرحِ ہدایہ اور معراج الدرایہ میں ہے۔‘‘ (الفتاوی الہندیّۃ المعروف بہ فتاویٰ عالمگیری : 1/157) 7.شیخ زادہ حنفی رحمہ اللہ (1078ھ) لکھتے ہیں :