کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 40
سے ماخوذ مسئلہ پر اجماعِ امت ثابت ہوجائے، تب بھی وہ سند ’’ضعیف‘‘ ہی رہے گی، البتہ وہ مسئلہ اجماعِ امت کی وجہ سے شرعی درجہ حاصل کر لے گا۔
حدیث ابی امامہ رضی اللہ عنہ پر اگر بعض لوگوں نے عمل کیا ہے، تو ان کے عمل سے اسے کچھ تقویت نہیں ملے گی۔ اس پر مستزاد یہ کہ بہت سے اہل علم نے اسے ’’ضعیف وغیر ثابت‘‘ قرار دیا ہے اور تلقین کو بدعت قرار دیاہے۔
قبرپر تلقین اور علمائے دین:
1.علامہ عزبن عبدالسلام رحمہ اللہ (660ھ) فرماتے ہیں :
لَمْ یَصِحَّ فِي التَلْقِینِ شَيئٌ وَّھُوَ بِدْعَۃٌ، وَقَوْلُہٗ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، مَحْمُولٌ عَلٰی مَنْ دَنَا مَوْتُہٗ وَیَئِسَ مِنْ حَیَاتِہٖ ۔
’’میت کو تلقین کے بارے میں کوئی حدیث ثابت نہیں ۔یہ بدعت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ مرنے والوں کو لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ کی تلقین کریں ، اُس کے بارے میں ہے، جس کی موت کا وقت قریب ہو اور اس کی زندگی کی امید نہ رہے۔‘‘
(فتاوی العزّ بن عبد السّلام، ص 427)
2.علامہ ابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ (620ھ)لکھتے ہیں :
أَمَّا التَّلْقِینُ بَعْدَ الدَّفْنِ، فَلَمْ أَجِدْ فِیہِ عَنْ أَحْمَدَ شَیْئًا، وَلَا أَعْلَمُ فِیہِ لِلْـأَئِمَّۃِ قَوْلًا، سِوٰی مَا رَوَاہُ الْـأَثْرَمُ، قَالَ : قُلْتُ لِأَبِي