کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 39
أَصْلٌ، أَيْ صَحِیِحٌ أَوْ حَسَنٌ ۔ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے بیٹے کو تلقین والی روایت کی کوئی صحیح یا حسن سند موجود نہیں ۔‘‘ (السّیرۃ الحلبیّۃ : 3/437) فائدہ نمبر 2 : حافظ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ) لکھتے ہیں : ھٰذَا الْحَدِیثُ، وَإِنْ لَّمْ یَثْبُتْ، فَاتِّصَالُ الْعَمَلِ بِہٖ فِي سَائِرِ الْـأَمْصَارِ وَالْـأَعْصَارِ مِنْ غَیْرِ إِنْکَارٍ، کَافٍّ فِي الْعَمَلِ بِہٖ ۔ ’’یہ حدیث اگرچہ ثابت نہیں ،لیکن تمام علاقوں میں ہر زمانے میں اس پر بغیر انکار کے عمل ہوتا رہا ہے۔اس پر عمل کے لئے یہی کافی ہے۔‘‘ (الرّوح، ص 16) ہو سکتا ہے کہ یہ عبارت الحاقی ہو، یعنی کسی ناسخ کی غلطی سے درج ہو گئی ہو، کیونکہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ خود سیرت ِنبوی علی صاحبہا الصلوۃ والسلام بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : لَمْ یَکُنْ یَّجْلِسُ یَقْرَأُ عِنْدَ الْقَبَرِ، وَلَا یُلَقِّنُ الْمَیِّتَ، کَمَا یَفْعَلُہُ النَّاسُ الْیَوْمَ ۔ ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس قرأت کرنے نہیں بیٹھتے تھے، نہ ہی(قبر پر) میت کو تلقین کرتے تھے،جیسا کہ موجودہ زمانے میں لوگ کرتے ہیں ۔‘‘ (زاد المَعاد في ھدي خیر العِباد : 1/522) اگر کسی ضعیف روایت کے حکم پر بعض لوگ عمل کریں ، تو وہ صحیح نہیں ہو جاتی۔ لوگوں کے عمل سے سند کا صحیح ہونا محدثین کا مذہب نہیں ۔اگر کسی روایت کے حکم پر،یعنی اس