کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 37
’’عطیہ دُعا راوی کو میں نہیں پہچانتا۔‘‘(مجمع الزّوائد : 3/44) دوسرے یہ کہ اس کا مروجہ تلقین سے کوئی تعلق نہیں ہے، قبر پرکھڑے ہو کر دعا کرنا تو جائز ہے۔ حافظ ا بن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسے حدیث ابواُمامہ کا شاہد قرار دیا ہے، جو کہ درست بات نہیں لگتی۔ (ھ)امام سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں : حَضَرْتُ ابْنَ عُمَرَ فِي جَنَازَۃٍ، فَلَمَّا وَضَعَھَا إِلَی اللَّحْدِ، قَالَ : بِسْمِ اللّٰہِ، وَعَلٰی مِلَّۃِ رَسُولِ اللّٰہِ ۔ ’’میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ ایک جنازے میں حاضر ہوا۔جب انہوں نے میت کو لحد میں رکھا تو فرمایا : اللہ کے نام سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر۔‘‘ (سنن ابن ماجہ : 1553، المعجم الکبیر للطّبراني : 12/212، ح : 13094، السّنن الکبرٰی للبیھقي : 4/55) سخت ’’ضعیف‘‘ ہے۔ 1.حماد بن عبدالرحمن کلبی ’’ضعیف‘‘ہے۔ (تقریب التّھذیب : 1502) حافظ بوصیری رحمہ اللہ (840ھ)کہتے ہیں : ھٰذَا إِسْنَادٌ فِیہِ حَمَّادُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ، ھُوَ مُتَّفَقٌ عَلٰی تَضْعِیفِہٖ ۔ ’’اس سند میں حماد بن عبد الرحمن ہے جس کو ضعیف قرار دینے پر تمام محدثین متفق ہیں ۔‘‘ (مصباح الزّجاجۃ : 1/505)