کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 36
أَنْ یُّقَالَ عِنْدَ قَبْرِہٖ : یَا فُلَانُ ! قُلْ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، یَا فُلَانُ ! قُلْ : رَبِّيَ اللّٰہُ، وَدِینِيَ الْإِسْلَامُ، وَنَبِیِّي مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔ ’’تابعی ضمرہ بن حبیب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ جب میت پر قبر کو برابر کر دیا جاتا اور لوگ واپس چلے جاتے تو وہ اس کی قبر کے پاس یہ کہنا مستحب سمجھتے تھے: اے فلاں ! تو ’لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ‘ کہہ (تین مرتبہ )، اے فلاں ! تو کہہ کہ میر ا رب اللہ ہے اور میرا دین اسلام ہے اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔‘‘ (سنن سعید بن مَنصور، نقلًا عن بلوغ المرام لابن حجر : 471) سند ’’ضعیف ‘‘ ہے، اس میں ’’اشیاخ من اہل حمص ‘‘مجہول و نامعلوم ہیں ، لہٰذا یہ ناقابل حجت اور ناقابل عمل ہے۔ (د)حکم بن حارث سلمی نے کہا: إِذَا دَفَنْتُمُونِي وَرَشَشْتُمْ عَلٰی قَبْرِي، فَقُومُوا عَلٰی قَبْرِي، وَاسْتَقْبِلُوا الْقِبْلَۃَ، وَادْعُوا لِي ۔ ’’جب مجھے دفن کر دو اور میری قبر پر پانی چھڑک دو، تو قبر پر کھڑے ہو کر قبلے کی طرف رُخ کرو اور میرے لیے دُعا کرو۔‘‘ (المُعجم الکبیر للطبّراني : 3/215، ح : 3171) سند’ ’ضعیف‘‘ ہے۔ حافظ ہیثمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عَطِیَّۃُ الدُّعَائُ، وَلَمْ أَعْرِفْہُ ۔