کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 31
’’فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کے بارے میں جو بات مشہور ہے، اس کا اطلاق یہاں نہیں ہو سکتا۔یہ ان اعمال سے متعلق ہے، جن کی مشروعیت قرآنِ کریم یا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔جو عمل کتاب و سنت سے ثابت نہ ہو،اس بارے میں ضعیف حدیث پر عمل جائز نہیں ،کیونکہ یہ (ثواب کے لیے عمل کرنا)شریعت ہے اور شریعت ضعیف حدیث سے ثابت نہیں ہوتی۔ ضعیف حدیث بالاتفاق مرجوح ظن کا فائدہ دیتی ہے۔ ایسی کمزور دلیل پر عمل کرنا کیونکر جائز ہوا؟‘‘ (سِلسلۃ الأحادیث الضّعیفۃ : 2/65) شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (728ھ) فرماتے ہیں : لَمْ یَقُلْ أَحَدٌ مِّنَ الْـأَئِمَّۃِ : إِنَّہٗ یَجُوزُ أَنْ یُّجْعَلَ الشَّرْعُ وَاجِبًا أَوْ مُسْتَحَبًّا بِحَدِیثٍ ضَعِیفٍ، وَمَنْ قَالَ ھٰذَا فَقَدْ خَالَفَ الْإِجْمَاعَ ۔ ’’ائمہ میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ ضعیف حدیث کی بنیاد پر کسی عمل کو واجب یا مستحب کہنا جائزہے۔ یہ دعوی کرنے والا اجماع کا مخالف ہے۔‘‘ (مَجموع الفتاوٰی : 1/251) بعض اہل علم کا خیال ہے کہ اس ’’ضعیف‘‘حدیث کے کئی شواہد بھی ہیں ۔ ہم وہ شواہد بھی قارئین کرام کی نظر کر رہے ہیں ،ملاحظہ فرمائیں : 1۔(ا)أَخْرَجَ ابْنُ مَنْدَۃَ عَنْ أَبِي أُمَامَۃَ، قَالَ : إِذَا مُتُّ فَدَفَنْتُمُونِي، فَلْیَقُمْ إِنْسَانٌ عِنْدَ رَأْسِي، فَلْیَقُلْ : یَا صُدَيَّ بْنَ عَجْلَانَ! اذْکُرْ مَا کُنْتَ عَلَیْہِ فِي الدُّنْیَا؛ شَھَادَۃَ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا