کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 29
اَلتَّلْقِینُ لَمْ یَثْبُتْ فِي حَدِیثٍ صَحِیحٍ وَّلَا حَسَنٍ، بَلْ حَدِیثُہٗ ضَعِیفٌ بِاتِّفَاقِ الْمُحَدِّثِینَ ۔
’’(قبر پر) تلقین کرنا کسی صحیح یا حسن حدیث سے ثابت نہیں ، بلکہ اس بارے میں مروی حدیث باتفاقِ محدثین ضعیف ہے۔‘‘
(الحاوي للفَتاوی : 2/191)
نیز کہتے ہیں :
فِي مُعْجَمِ الطَّبْرَانِيِّ بِسَنَدٍ ضَعِیفٍ ۔
’’یہ راویت ضعیف سند کے ساتھ معجم طبرانی میں موجود ہے۔‘‘
(الدّرَر المُنتثرۃ في الأحادیث المُشتہرۃ : 669)
لہٰذا علامہ عینی حنفی(البنایۃ في شرح الھدایۃ : ۳/۱۷۷) کا اس کی سند کو ’’صحیح‘‘ کہنا خطا ہے۔ حافظ ابن ملقن رحمہ اللہ کا یہ کہنا بھی درست نہیں :
إِسْنَادُہٗ، لَا أَعْلَمُ بِہٖ بأْسًا ۔
’’اس کی سند میں حرج معلوم نہیں ہوتا۔‘‘
(البدر المنیر : 5/334)
کیونکہ ایک مقام پر وہ خود اسماعیل بن عیاش کے بارے میں لکھتے ہیں :
ھُوَ عَنْ غَیْرِ الشَّامِیِّینَ لَیْسَ بِشَيْئٍ عِنْدَ الْجُمْھُورِ ۔
’’جمہور کے نزدیک اس کی غیر شامیوں سے روایت معتبر نہیں ۔‘‘
(البدر المنیر : 4/543)
اور اس سند میں اسماعیل بن عیاش غیر شامیوں سے روایت کر رہے ہیں ۔
ثابت ہوا کہ ائمہ حدیث اور علمائے سنت کے نزدیک یہ روایت ’’ضعیف‘‘ہے۔