کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 28
2.حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ)کہتے ہیں : إِسْنَادُہٗ ضَعِیفٌ ۔’’اس کی سند ضعیف ہے۔‘‘ (المجموع شرح المھذّب : 5/257) 3.حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ (663ھ)فرماتے ہیں : لَیْسَ إِسْنَادُہٗ بِالْقَائِمِ ۔ ’’اس کی سند قابل حجت نہیں ۔‘‘ (فتاوی ابن الصلاح : 1/261، الأذکار للنّووي، ص 138) 4.علامہ ابن قیم رحمہ اللہ (751ھ) فرماتے ہیں : ضَعِیفٌ بِاتِّفَاقِ أَھْلِ الْعِلْمِ بِالْحَدِیثِ ۔ ’’محدثین کا اس حدیث کے ضعفپراتفاق ہے۔‘‘ (تحفۃ المودود، ص 149) نیزفرماتے ہیں : لَا تَقُومُ بِہٖ حُجَّۃٌ ۔ ’’اسے دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘ (تھذیب السّنن : 7/250) 5.حافظ ہیثمی رحمہ اللہ (807ھ)فرماتے ہیں : فِي إِسْنَادِہٖ جَمَاعَۃٌ، لَمْ أَعْرِفْھُمْ ۔ ’’اس کی سند میں کئی راوی ہیں ، جنہیں میں پہچان نہیں پایا۔‘‘ (مجمع الزّوائد : 3/45) 6.حافظ سیوطی رحمہ اللہ (911ھ)کہتے ہیں :