کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 27
’’اس (طبرانی)کی سند میں کئی راوی ہیں ، جنہیں میں پہچان نہیں سکا۔‘‘
(مَجمع الزّوائد : 3/45)
لہٰذا حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا یہ کہنا درست نہیں :
إِسْنَادُہٗ صَالِحٌ، وَقَدْ قَوَّاہُ الضِّیَائُ فِي أَحْکَامِہٖ ۔
’’اس کی سند حسن ہے۔ امام ضیاء مقدسی نے اسے اپنی کتاب ’’الاحکام‘‘ میں اسے مضبوط قرار دیا ہے۔‘‘
(التّلخیص الحبیر : 2/136-135، ح : 796)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ خود اس حدیث کے بارے میں فرماتے ہیں :
ھٰذَا حَدِیثٌ غَرِیبٌ، وَسَنَدُ الْحَدِیثِ مِنَ الطَّرِیقَیْنِ ضَعِیفٌ جِدًّا ۔
’’یہ حدیث غریب ہے اور اس کی دونوں سندیں ضعیف ہیں ۔‘‘
(الفتوحات الربّانیّۃ : 4/196)
حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ہمارے شیخ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس حدیث کو اپنی بعض تصانیف میں ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
(المَقاصد الحسنۃ، ص 265)
اس حدیث کے بارے میں دیگر اہل علم کی آرا بھی ملاحظہ فرمائیں :
1.حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے شیخ حافظ عراقی رحمہ اللہ (806ھ) فرماتے ہیں :
اَلطَّبَرَانِيُّ ھٰکَذَا بِإِسْنَادٍ ضَعِیفٍ ۔
’’اسے امام طبرانی رحمہ اللہ نے اسی طرح ضعیف سند کے ساتھ بیان کیا ہے۔‘‘
(تخریج أحادیث الإحیاء : 4/420)