کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 24
’’سعید بن عبداللہ اودی بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا، جب وہ جان کنی کی حالت میں تھے۔ فرمانے لگے : جب میں فوت ہو جاؤں ، تو میرے ساتھ وہی معاملہ کرنا، جو ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں کے ساتھ کرنے کا حکم دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھاکہ جب کوئی فوت ہو جائے اور اس کی قبر پر مٹی برابر کر دیں ، تو ایک شخص اس کی قبر کے سرہانے کھڑا ہو کر کہے:اے فلاں ! جب وہ یہ کہے گا تو مُردہ اٹھ کر بیٹھ جائے گا،مُردہ یہ بات سنے گا،لیکن جواب نہیں دے گا۔پھر کہے:اے فلاں ! وہ کہے گا:اللہ تجھ پر رحم کرے ! ہماری رہنمائی کر، لیکن آپ اس کا شعور نہیں رکھتے۔ پھر کہے کہ وہ بات یاد کر،جس پر دنیا سے رخصت ہوا ہے۔اس کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ تُو اللہ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے، اسلام کے دین ہونے اور قرآن کے امام ہونے پر راضی تھا۔ منکر اور نکیر میں سے ایک،دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر کہتاہے : چلو، جس آدمی کو اس کا جواب بتا دیا گیا ہو، اس کے پاس ہم نہیں بیٹھتے۔چنانچہ دونوں کے سامنے اللہ تعالیٰ اس کا حامی بن جائے گا۔ ایک آدمی نے عرض کی : اللہ کے رسول! اگر وہ (تلقین کرنے والا) اس (مرنے والے) کی ماں کو نہ جانتا ہو، تو( کیا کرے)؟ فرمایا : وہ اسے حواء علیہا السلام کی طرف منسوب کر کے کہے، اے حواء کے فلاں بیٹے!‘‘
(المعجم الکبیر للطّبراني : 8/250، ح : 7979، الدّعاء للطّبراني : 3/298، ح : 1214، وصایا العلماء عند حضور الموت لابن زبر، ص 47-46، الشّافي لعبد العزیز،