کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 22
سند باطل ہے، یحییٰ بن ایوب غافقی مصری (168ھ) کہتے ہیں : سَمِعْتُ مَنْ یَّذْکُرُ أَنَّہٗ کَانَ فِي زَمَنِ عُمَرَ ۔۔۔۔۔ ’’میں نے ایک بیان کرنے والے کو سنا کہ عہد ِفاروقی میں ۔۔۔‘‘ یوں یہ سند سخت ’’معضل‘‘ ہے۔نہ جانے وہ قصہ گو کون تھا اور اس نے کہاں سے یہ حکایت سنی تھی؟ اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ نے ایک قول کی سند بیان کرتے ہوئے فرمایا: سَمِعْتُ بَعْضَ أَصْحَابِ عَبْدِ اللّٰہِ (ابْنِ الْمُبَارَکِ) ۔۔۔۔۔۔ ’’میں نے عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کو بیان کرتے سنا۔۔۔‘‘ (مقدّمۃ صحیح مسلم : 19) تو اس پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ نووی رحمہ اللہ (676ھ)کہتے ہیں : سَمِعْتُ بَعْضَ أَصْحَابِ عَبْدِ اللّٰہِ، ھٰذَا مَجْھُولٌ، وَلَا یَصِحُّ الْاحْتِجَاجُ بِہٖ ۔ ’’اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کے ایک شاگرد کو سنا ہے۔یہ شاگرد مجہول ہے اور اس سند سے دلیل لینا درست نہیں ۔‘‘ (شرح صحیح مسلم : 1/117) مبہم اور غیر معروف لوگوں کی روایات پر اپنے عقائد و اعمال کی بنیاد رکھنا جائز نہیں ۔ دلیل نمبر4 حَدَّثَنَا أَبُو عَقِیلٍ أَنَسُ بْنُ سَلْمٍ الْخَوْلَانِيُّ : ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ