کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 21
نوجوان نہیں دیکھتا تھا، ایک رات قدم نے لغزش کی۔ ساتھ ہو لیا۔ دروازے تک گیا۔ جب اندر جانا چاہا، اللہ تعالیٰ یاد آیا اور بے ساختہ یہ آیت کریمہ زبان سے نکلی : ﴿إِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّھُمْ طَآئِفٌ مِّنَ الشَّیْطَانِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَا ھُمْ مُّبْصِرُوْنَ﴾ ’’اللہ سے ڈرنے والوں کو شیطان گمراہی کے رستے لے جاتا ہے، تو وقت گناہ انہیں اللہ یاد آ جاتاہے اور وہ بصیرت پا لیتے ہیں ۔‘‘ آیت پڑھتے ہی غش کھا کر گرا۔ عورت نے اپنی کنیز ساتھ لی، اٹھایا اوراس کے گھر کے دروازے پر پھینک دیا۔باپ منتظر تھا۔ آنے میں دیر ہوئی۔دیکھنے نکلا۔دروازے پر بے ہوش پڑا پایا۔گھر والوں کو بلا کر اندر لے گیا۔رات گئے، ہوش آئی۔باپ نے حال پوچھا۔ کہا : خیریت ہے؟ کہا : بتا دے۔ ناچار قصہ بیان کیا۔باپ بولا : جان پدر! وہ آیت کون سی ہے؟ جوان نے پھر پڑھی، پڑھتے ہی غش آیا۔ حرکت دی، تو مردہ حالت میں پایا۔ رات ہی نہلا کر کفناکر دفن کر دیا۔ صبح کو امیر المومنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خبر پائی۔ باپ سے تعزیت کی اور خبر نہ دینے کی شکایت فرمائی۔ عرض کی : امیر المومنین! رات تھی۔ پھر امیر المومنین ساتھیوں کو لے کر قبر پر گئے۔ فَقَالَ عُمَرُ : یَا فُلَانُ! وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتٰانِ، فَأَجَابَہُ الْفَتٰی مِنْ دَاخِلِ الْقَبْرِ : یَا عُمَرُ! قَدْ أَعْطَانِیھُمَا رَبِّي یَا عُمَرُ ۔ ’’تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اُو فلاں ! جو اپنے ربّ کے سامنے جوابدہی سے ڈر جائے، اس کے لیے دو جنتیں ہیں ۔نوجوان نے قبر کے اندر سے جواب دیا : عمر! اللہ تعالیٰ نے وہ دونوں مجھے عطا کر دی ہیں ۔‘‘ (ذمّ الھوٰی لابن الجوزي، ص 253-252، تاریخ دِمَشق لابن عساکر : 45/450)