کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 17
ذرا سی بے احتیاطی معاملہ کو گھمبیر سے گھمبیر تر بنا دیتی ہے، علمی گفتگو جس سنجیدگی ومتانت کا تقاضہ کرتی ہے، وہ شامی صاحب کی اس عبارت میں نظر نہیں آتی، بلکہ نا چاہتے ہوئے بھی اس میں معنوی تحریف در آئی ہے۔ اہل علم کو اس طرح کی غیر سنجیدہ باتیں زیب نہیں دیتیں ۔ احمد یا ر خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں : ’’اس حدیث کے دو معنی ہو سکتے ہیں ، ایک تو یہ ہے کہ جو مر رہا ہو، اس کو کلمہ سکھاؤ، دوسرے یہ کہ جو مر چکا ہو، اس کو سکھاؤ، پہلے معنیٰ مجازی ہیں اور دوسرے حقیقی اور بلا ضرورت معنی مجازی لینا ٹھیک نہیں ، لہٰذا حدیث کا یہ ہی ترجمہ ہو ا کہ اپنے مردوں کو کلمہ سکھاؤ اور یہ وقت دفن کا ہے ۔‘‘ (جاء الحق : 1/311) قارئین یاد رکھئے کہ تعذر نہ ہو، تو حقیقی معنی ہی لیا جاتا ہے، جب کوئی امر مانع ہو، تو حقیقت کو چھوڑ کر مجاز کی طرف جایا جاتا ہے، یہ بھی اسی قبیل سے ہے، یہاں حقیقی معنی متعذر ہے، کیونکہ مردے میں اخذ وتعلم کی صلاحیت نہیں ہوتی، لہٰذا یہاں بھی مجازی معنیٰ مراد ہے۔نعیمی صاحب مزید لکھتے ہیں : ’’اس حدیث اور ان عبارات سے معلوم ہوا کہ دفنِ میت کے بعد اس کو کلمہ ٔ طیبہ کی تلقین مستحب ہے ۔‘‘ (جاء الحق : 1/312) افسوس! اہل سنت محدثین جس حدیث کو قرب ِ موت والی حالت پر محمول کرتے ہیں ، مفتی صاحب اسے بغیر دلیل کے دفنِ میت کے بعد کی حالت پر محمول کرکے ایک بدعت کو سند جواز فراہم کر رہے ہیں ۔