کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 16
اہل علم کی تصریحات سے معلوم ہواکہ لا الہ الا اللہ کی تلقین قریب المرگ کو کی جائے گی، نہ کہ مدفون میت کو۔ اس بات کوسمجھئے اور التباس کا شکار نہ ہو جایئے۔
علامہ ابن عابدین شامی حنفی رحمہ اللہ (1252ھ)کہتے ہیں :
أَمَّا عِنْدَ أَہْلِ السُّنَّۃِ فَالْحَدِیثُ أَيْ لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰہَ إلَّا اللّٰہُ مَحْمُولٌ عَلٰی حَقِیقَتِہٖ لِأَنَّ اللّٰہَ تَعَالٰی یُحْیِیہٖ عَلٰی مَا جَائَ تْ بِہِ الْآثَارُ وَقَدْ رُوِيَ عَنْہُ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ أَنَّہٗ أَمَرَ بِالتَّلْقِینِ بَعْدَ الدَّفْنِ فَیَقُولُ : یَا فُلَانَ بْنَ فُلَانٍ، اُذْکُرْ دِینَکَ الَّذِي کُنْتَ عَلَیْہِ ۔
’’اہل سنت کا مسلک یہ ہے کہ حدیث : ’لَقِّنُوا مَوْتَاکُمْ‘ اپنے حقیقی معنی پر محمول ہے، کیونکہ احادیث نبویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ انہیں زندہ کر دیتے ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے دفن کے بعد تلقین کا حکم دیا ہے، توقبر پر کہا جائے کہ اے فلاں ! تو اس دین کو یاد کر، جس پر قائم تھا۔‘‘
(فتاوی الشّامي، باب الدّفن : 1/628، الجوھرۃ النیرۃ : 1/252)
اس سلسلہ میں دو گزارشات ذہن نشین کر لیجئے :
1.اہل سنت نے اس حدیث کو کہیں بھی حقیقی معنی پر محمول نہیں کیا، کسی ایک کا امام کا حوالہ بھی اس کی تائید میں پیش نہیں کیا جا سکتا، حتی کہ شامی صاحب کا یہ نظریہ احناف کی تائید سے بھی محروم ہے۔
2.نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دفن کے بعد تلقین کا حکم قطعاًثابت نہیں ، دفن کے بعد قبر پر تلقین دین نہیں ہے، بلکہ تازہ ایجاد ہے ۔
یہ بھی دھیان رہے کہ دین کے معاملہ میں حزم واحتیاط کی اشد درجہ ضرورت ہے،