کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 127
نیز لکھتے ہیں :
کَذٰلِکَ الذِّکْرُ جَھْرًا یُکْرَہُ فِعْلُہٗ خَلْفَ الْجَنَازَۃِ، وَلَیْسَ فِیْہِ أَجْرٌ لِلذَّاکِرِ وَلَا لِلْمَیِّتِ ۔
’’جنازہ کے پیچھے اونچی آواز سے ذکر مکروہ ہے، اس میں ذاکر (ذکر کرنے والے) اور میت کے لیے کوئی اجر نہیں ہے ۔‘‘
(کتاب اللّمع في الحوادث والبِدَع : 216)
3.فتاویٰ عالمگیری وغیرہ میں ہے :
’’جنازے کے ساتھ جانے والوں کو خاموش رہنا واجب ہے اور بلند آواز سے ذکر کرنا اور قرآن پڑھنا مکروہ ہے، اگر اللہ کا ذکر کرنا چاہیں ، تو اپنے دل میں کریں ۔‘‘
(فتاویٰ عالمگیری : 1/162، فتاویٰ قاضی خان : 1/92 بحوالہ جاء الحق از نعیمی : 1/408)
4.ایک عالم لکھتے ہیں :
رَفْعُ الصَّوْتِ بِالذِّکْرِ وَقِرَائَ ۃِ الْقُرْآنِ وَقَوْلِھِمْ کُلُّ حَيٍّ یَمُوْتُ وَنَحْوِ ذٰلِکَ خَلْفَ الْجَنَازَۃِ بِدْعَۃٌ ۔
’’جنازہ کے ساتھ بآواز بلند ذکر، قرأت قرآن، لوگوں کا یہ کہنا کہ ہر زندہ مرے گا اور اس طرح کی دوسری باتیں بدعت ہیں ۔‘‘
(فتاویٰ سراجیہ : 23)
5.محمد رکن دین لکھتے ہیں :
’’سوال : جو لوگ جنازہ کے ہمراہ ہوں ان کو کلمہ طیبہ راستہ میں پڑھنا کیسا ہے؟