کتاب: بدعات سنت کے میزان میں - صفحہ 12
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : إِنَّ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَادَ رَجُلًا مِّنَ الْـأَنْصَارِ فَقَالَ : یَا خَالُ، قُلْ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ فَقَالَ : أَخَالٌ أَمْ عَمٌّ؟ فَقَالَ : لَا، بَلْ خَالٌ، قَالَ : فَخَیْرٌ لِي أَنْ أَقُولَ : لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ : نَعَمْ ۔ ’’رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کی تیمارداری کے لئے گئے، فرمایا : ماموں جان! لا الہ الا اللہ پڑھ لیجئے، کہا : ماموں یا چچا؟ فرمایا : ماموں ! کہا : کیا لا الہ الا اللہ کہنا میرے لیے خیر کا پیغام لائے گا؟ فرمایا : جی ہاں ۔‘‘ (مسند الإمام أحمد : 3/268، وسندہٗ صحیحٌٌ) 2.امام ترمذی رحمہ اللہ باب قائم کرتے ہیں : بَابُ مَا جَائَ فِي تَلْقِینِ الْمَرِیضِ عِنْدَ الْمَوْتِ، وَالدُّعَائِ لَہٗ عِنْدَہٗ ۔ موت کے وقت مریض کو تلقین اور اس کے لئے دعا کا بیا ن ۔‘‘ نیز لکھتے ہیں : قَدْ کَانَ یُسْتَحَبُّ أَنْ یُلَقَّنَ الْمَرِیضُ عِنْدَ الْمَوْتِ قَوْلَ لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ، وقَالَ بَعْضُ أَہْلِ العِلْمِ : إِذَا قَالَ ذٰلِکَ مَرَّۃً، فَمَا لَمْ یَتَکَلَّمْ بَعْدَ ذٰلِکَ، فَلَا یَنْبَغِي أَنْ یُلَقَّنَ، وَلَا یُکْثَرَ عَلَیْہِ فِي ہٰذَا ـ ’’موت کے وقت مریض کو لا الہ الا اللہ کی تلقین مستحب ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں کہ ایک دفعہ تلقین کے بعد جب تک قریب المرگ دوبارہ کلام نہ کرے، اسے تلقین نہیں کرنی چاہیے، تلقین میں زیادتی بھی نہیں کرنا چاہیے۔‘‘ (سنن التّرمذي، تحت الحدیث : 977)