کتاب: بدعت کتاب وسنت کی روشنی میں - صفحہ 43
اس بدعت کو بر صغیر ہند وپاک میں پھیلے ہوئے ایک سو چھ سال سے زیادہ عرصہ نہیں گذرا ہے، 1906ء میں ہندوستان کی سابق ریاست رام پور کے ایک درباری شاعر خورشید احمد مینائی نے ایک کہانی تراش کر" داستان عجیب " کے نام سے شائع کی، جس میں مذکورہ بالا قول حضرت جعفر صادق رحمہ اﷲ کی طرف منسوب کیا۔حالانکہ اس سے پہلے اس طرح کے کسی قول کی نسبت آپ کی جانب نہیں کی گئی۔ تو اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قول کی کیا سند ہے ؟ امام موصوف نے یہ بات کس سے کہی تھی ؟اور آپ کے اس قول کا تیرہ سو سال تک کسی کو پتہ ہی نہیں چل سکا اور پتہ بھی چلا تو ایک درباری شاعر کو ؟
امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ خاندان نبوت کے ایک ممتاز فرد ہیں، اسی خاندان سے اﷲ تعالیٰ نے دنیا میں توحید کو عام کیا، آپ جیسی شخصیت سے یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ لوگوں کو شرک کا حکم دیں۔نیز 22؍ رجب کی تخصیص کیوں ؟ کیا اس دن امام موصوف کی ولادت یا وفات ہوئی تھی ؟ آپکی ولادت 8رمضان المبارک 80 ھ یا 82 ھ میں ہوئی تھی اور وفات 15 شوال 148 ھ اور نہ ہی آپ کی زندگی کا کوئی اہم واقعہ اس تاریخ سے جڑا ہوا ہے، تو پھر22؍ رجب کا فلسفے میں :
بے خودی بے سبب نہیں غالب کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
والا معاملہ تو نہیں ؟ جی ہاں !حقیقت یہ ہے کہ22رجب 60ھ امیر المؤمنین، خال المسلمین کاتب وحی رب العالمین،سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تھا،جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بغض وعداوت رکھتے اور ان پر تبرا بازی کرتے ہیں، کونڈوں کا یہ سارا کھیل انہیں کا رچایا ہوا ہے۔ اسلئے تمام مسلمانوں کو اس بدعت سے بچنا چاہئے۔