کتاب: بدعت کتاب وسنت کی روشنی میں - صفحہ 4
"خَطَّ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صلی اللّٰه علیہ وسلم خَطًّا فَقَالَ :" ہٰذَا سَبِیْلُ اللّٰهِ " ثُمَّ خَطَّ خُطُوْطًا عَنْ یَمِیْنِہِ وَعَنْ شِمَالِہِ، ثُمَّ قَالَ :" وَہٰذِہِ سُبُلٌ، عَلٰی کُلِّ سَبِیْلٍ مِنْہَا شَیْطَانٌ یَدْعُوْ إِلَیْہِ" ثُمَّ تَلَا : ﴿ وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَلاَ تَتَّبِعُوْا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُم ْعَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصَّاکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ﴾ ( مسند احمد :4142 )ترجمہ : رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے سامنے ایک لکیر کھینچی اور فرمایا : "یہ اﷲ کا راستہ " ہے، پھر اسکے دائیں بائیں کچھ لکیریں کھینچیں، فرمایا :"یہ متفرق راستے ہیں، اور ہر راستہ پر ایک شیطان بیٹھا ہوا ہے جو اسکی طرف بلا رہا ہے " پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ انعام کی مذکورہ بالا آیت کی تلاوت فرمائی۔
ان آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ دین مکمل ہے، کسی کمی یا زیادتی کا محتاج نہیں، ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کو ہرلحاظ سے اپنے اقوال، اعمال کے ذریعے اپنی زندگی میں واضح فرمادیا، چاہے وہ عبادات سے متعلق ہو یا معاملات سے، آداب سے ہو یا اخلاق سے، معیشت سے ہو یا معاشرت سے، سیاست سے متعلق ہو یا سماج سے۔
افتراق کے اسباب کی مذمت
جب یہ معلوم ہوچکا کہ نجات کا راستہ کتاب وسنت میں ہی ہے، تو یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ اس راستے پر گامزن ہونا اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک کہ ان بدعات وخرافات سے نہ بچا جائے جسے بعض علمائے سوء نے دین میں داخل کرکے مسلمانوں کو اسلام کے سیدھے راستے سے ہٹا کر مختلف فرقوں میں بانٹ دیا ہے،