کتاب: بدعت کتاب وسنت کی روشنی میں - صفحہ 28
کثیر تعداد میں موجود ہیں، اورابھی تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے بھی بوسیدہ نہیں ہوئے اور آپ کے برتن تک نہیں ٹوٹے۔ اس ذات کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، کیا تم ایسے دین پر ہو جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دین سے زیادہ بہتر ہے، یا تم گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو ؟۔ انہوں نے کہا : اے ابو عبد الرحمن ! ہم تو بس خیر کے طلب گار ہیں۔ حضرت إبن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کتنے ہی ایسے خیر کے طلب گار ہیں جو اسے حاصل نہیں کرپاتے، بے شک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک جماعت کے متعلق بتلایا تھا جو قرآن پڑھے گی لیکن وہ انکے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا، اور اﷲ کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ شاید ان میں سے اکثر تم ہی لوگ ہو۔ پھر آپ ان لوگوں کے پاس سے لوٹے۔ عمرو بن سلمہ کہتے ہیں : ہم نے دیکھا کہ یہ تمام لوگ نہروان کی لڑائی میں خوارج سے مل کر ہمارے ساتھ جنگ کررہے تھے۔ ( سنن دارمی ) جب حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کے ذکر الہٰی کا طریقہ،کیفیت اور تخصیص ِ وقت کو اس قدر نا پسند فرمایا۔جب کہ سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ اکبر کے ذکر کی بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں۔ اگر آج آپ زندہ ہوتے اور مسلمانوں کے مروجہ اذکار اور طرائق ِ صوفیہ کے" ھُوَ حَیٌّ" "یَا ہُوْ " کے نعرے، قوالوں کے گانے، رقص و سرودکی مجلسیں، مجالس میں مردوزن کا اختلاط، بے پردگی وعریانیت، آلات ِطرب کا استعمال اور منشیات کی گرم بازاری دیکھتے تو نجانے اس پر آپ کا رد ِ عمل کس قدر سخت ہوتا؟ صوفی لوگ حلقے قائم کر کے بلند آواز سے ذکر جہری کرتے ہیں۔ حالانکہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم