کتاب: بدعت کتاب وسنت کی روشنی میں - صفحہ 21
سے وہ ان بدعتوں کا یکسر محتاج نہیں۔ بدعتوں کا مقصد اگرچہ کہ حصول ِ رضائے الہٰی ہے لیکن ان کے سبب آدمی اللہ کا مغضوب اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لعنت کا شکار ہوجاتا ہے اس لئے کہ اللہ سے تعلق پیدا کرنے والے اور اس کے قرب کا باعث بننے والے تمام راستے صرف اور صرف قرآن وحدیث میں ہیں کیوں نہ ہو جب کہ انسان وجن کی خلقت کا مقصد ہی اللہ کی عبادت اور اس کا قرب ہے۔ ﴿ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ﴾ ( الذاریات :56)ترجمہ : میں نے جنوں اور انسانوں کو صرف اسلئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں .
اللہ نے جب اپنی عبادت کے لیے ہی ان کو پیدا کیا ہے تو اپنی عبادت اور تقرب کا راستہ بھی اپنی کتابوں اور رسولوں کی زبانی بتلایا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تقرب الٰہی کی جو حدود وقیود، ضوابط وقوانین اور عبادات واذکار اللہ کے حکم سے مقرر فرمائے ہیں ان میں کسی قسم کی زیادتی یا کمی ہر گز جائز نہیں۔
بدعت کی تقسیم
بعض لوگوں نے بدعت کو دو قسموں میں منقسم کیا ہے :۱)بدعت حسنہ ۲)بدعت سیّئہ۔ اپنی اس تقسیم کے جواز میں جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی مذکورہ حدیث پیش کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ اسلام نے دین میں ہر نئی چیز کو بدعت کہا ہے اس میں کسی بھی قسم کی تفریق نہیں کی.فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:" کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ