کتاب: بدعت کتاب وسنت کی روشنی میں - صفحہ 20
کہتے ہیں جس سے پہلے اسکی کوئی مثال اور نمونہ موجود نہ ہو۔ جیسا اﷲ تعالیٰ کے متعلق قرآن کریم کا یہ فرمان ہے :"بَدِیْعُ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ" یعنی آسمان و زمین کو بغیر کسی نمونے کے پیدا کرنے والا۔ اور اسی سے"إِبْتَدَعَ فُلَانٌ" ہے یعنی فلاں نے ایسا طریقہ شروع کیا جسے اس سے پہلے کسی نے نہیں کیا تھا۔ پھر اس لغو ی تعریف کا اصطلاحی تعریف سے ربط پید ا کرتے ہوئے فرماتے ہیں : "دین میں نئی چیز کو بدعت اس لئے کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کسی بھی نمونے کے بغیر کیا گیا ہے۔ اسی کو ابتداع اور اس کے ایحاد کرنے والے کو مبتدع کہتے ہیں "۔ پھر اس کے مقصد سے آگاہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں :’’بدعت دین کے ایسے نئے طریقے سے عبارت ہے جس کو کو ئی اختراعی ذہن ‘ اللہ کی قربت کے حصول کیلئے گھڑلے،جو اسلامی تعلیمات سے ٹکراتا ہو۔گو یا علامہ شاطبی نے "دین "کی قید لگا کر ان تما م صنعتوں اور حرفتوں کو بدعت کی فہرست سے نکال دیا جو دنیاکی ترقی اور لوگوں کی راحت کے لئے از حد ضروری ہیں . دنیا میں جتنی بھی عبادتیں ہیں، ان کی دو قسمیں ہیں : ۱) دین میں جس کی کو ئی اصل موجود ہو۔ ۲) وہ جس کی دین میں کوئی اصل نہ ہو۔ بدعات دوسری قسم سے تعلق رکھتی ہیں، اگر چہ کہ وہ اپنے ظاہر ی لبادہ کی وجہ سے اسلامی لگتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ اسلام کی ضد ہیں۔ کیونکہ دین کامل ہونے کی وجہ