کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 98
مجہول ہے، محمد بن ثابت العبدی بالاتفاق ضعیف ہے، اور شہر اپنی منصف مزاجی میں مختلف فیہ ہے۔‘‘ حافظ نے ’’التلخیص‘‘ (۳/۲۰۴) میں فرمایا: ’’وہ حدیث ضعیف ہے۔‘‘ پھر نووی نے فرمایا: ’’لیکن فضائل اعمال میں ضعیف روایت پر عمل کیا جائے گا، اس پر علماء کا اتفاق ہے اور یہ (حدیث) بھی اسی زمرے میں آتی ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں: یہ ضعیف حدیث، اس صحیح حدیث کے عموم کے خلاف ہے: ’’جس طرح وہ (مؤذن) کہتا ہے اسی طرح تم کہو۔‘‘ [1] اس کی مثل جو ضعیف حدیث پر عمل کرنا جائز قرار دیتے ہیں ان کے نزدیک بھی اس پر عمل کرنا جائز نہیں، اور یہ عجیب بات ہے کہ شافعیہ نے بھی اس کے ضعیف ہونے کے باوجود اس کو اپنایا ہے اور وہ صحیح حدیث کے عموم پر عمل کرنا ترک کرتے ہیں۔ پھر انہوں نے جو ذکر کیا کہ فضائل اعمال میں ضعیف حدیث پر عمل کرنے پر اتفاق ہے تو یہ اس طرح نہیں ہے،[2] کیونکہ ایسے علماء بھی ہیں جو ضعیف حدیث پر مطلق طور پر عمل نہیں کرتے، احکام میں نہ فضائل میں، ابن سیّد
[1] بخاری، الاذان، ما یقول اذا سمع المنادی، ح:۶۱۱۔ مسلم، الصلٰوۃ، استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعہ…، ح: ۳۸۳، ۳۸۴۔ سنن ابوداؤد، الصلٰوۃ، ما یقول اذا سمع المؤذن، ح: ۵۲۲، ۵۲۳۔ (شہباز حسن). [2] ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’ضعیف سنن ابی داؤد‘‘ (۱/۲۴۶۔۲۴۷) میں نووی کا اتفاق ذکر کیا ہے اور انہوں نے اس کے متعلق فرمایا:’’اور یہ صحیح نہیں، کیونکہ یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے اس کے متعلق تین اقوال ہیں، شیخ قاسمی نے اپنی ’’قواعد التحدیث‘‘ میں (ص۹۴) پر ذکر کیا ہے۔ (۱)… یہ کہ اس پر مطلق طور پر عمل نہ کیا جائے، احکام میں نہ فضائل میں، اسے ابن سید الناس نے یحییٰ بن معین کے حوالے سے ’’عیون الاثر‘‘ میں بیان کیا ہے اور ’’فتح المغیث‘‘ میں اسے ابوبکر بن العربی سے منسوب کیا ہے اور وہ ابن حزم کا مذہب ہے، جس طرح کہ انہوں نے اس کی اپنی کتابوں میں صراحت کی ہے، ان میں سے ’’الإحکام فی اصول الأحکام‘‘ (۱/۱۳۶) ہے۔ اس پر عمل کرنا کس طرح جائز ہے، اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ ضعیف حدیث ظن (خیال، گمان) ہی کا فائدہ پہنچاتی ہے… ظن مرجوح اور وہ (ظن) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سب سے جھوٹی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم سے پہلے لوگوں پر طعن کیا جو ظن و خیال کے مطابق عمل کرتے تھے، فرمایا: ﴿اِِنْ یَّتَّبِعُوْنَ اِِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَی الْاَنْفُسُ﴾ (النجم:۲۳) ’’وہ لوگ محض گمان اور اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاِِنَّ الظَّنَّ لَا یُغْنِیْ مِنَ الْحَقِّ شَیْئًا﴾ (النجم:۲۸) ’’حق بات کے مقابلے میں ظن و گمان کچھ کام نہیں آتا۔‘‘ اسی لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو روایت کی صحت معلوم ہوجانے کے بعد آپ سے حدیث روایت کرنے کی اجازت دی، آپ نے فرمایا: ’’مجھ سے صرف وہی حدیث بیان کرو جو تم جانتے ہو۔‘‘ کیا آپ اپنی حدیث کی صحت معلوم ہونے سے پہلے اس پر عمل کرنے کی اجازت دیں گے، جبکہ آپ نے اسے روایت کرنے سے منع فرمایا ہے؟ یقینا نہیں، اور یہ بالکل واضح ہے مخفی نہیں، اور اس کے متعلق اس قول کی تفصیل مقدمہ میں بیان ہوچکی ہے۔ میں نے کہا: المقدمہ سے ان کی مراد ضعیف سنن ابی داود کا مقدمہ ہے، شیخ رحمہ اللہ وفات پاگئے اور انہوں نے اس میں سے کچھ بھی نہیں لکھا.