کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 93
(۱۰/۲۷۵) میں ابن حجر رحمہ اللہ کے کلام کے بعد فرمایا: ’’یہود کے قصے سے استشہاد اس وقت درست تھا جب سبز رنگ کی شال کندھوں پر ڈالنا ان کے شعائر میں سے تھا، اس دور میں وہ ختم ہوچکا، لہٰذا وہ مباح کے عموم میں داخل ہوگیا، ابن عبد السلام نے اسے مباح بدعت کی مثالوں میں ذکر کیا ہے۔‘‘ انہوں نے جو کہا وہ یہ ہے:
’’میں کہتا ہوں: انہوں نے جو ’’مباح بدعت‘‘ کہا تو ہوسکتا ہے کہ وہ لغوی بدعت مراد لیتے ہوں، کیونکہ شرعی بدعت کو مباح یا حسنہ نہیں کہا جاسکتا، بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ساری کی ساری ’’ضلالہ‘‘ (گمراہی) ہیں۔ اس کی وضاحت اس کے موقع ومحل پر کی گئی ہے۔ اور اسے لغوی بدعت قرار دینا محل نظر ہے، جیسا کہ آثار سلفیہ میں بیان ہوا، تو ظاہر ہے کہ ابن عبد السلام ان سے آگاہ نہیں ہوسکے، جیسا کہ الحافظ نے اس میں سے کچھ بھی ذکر نہیں کیا، اور یہ ان کی عجیب وغریب باتوں میں سے ہے۔‘‘