کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 91
جیسا کہ بعض جہلاء کا خیال ہے، اور اس کی بہت سی وجوہات ہیں، جنہیں اب بیان کرنے کا موقع نہیں، ان میں سب سے اہم یہ ہے: کہ اس میں جو الحمد مذکور ہے اس کی شرعیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسے برقرار رکھنے کی وجہ سے معلوم ہوئی ہے، یہ بات خوب ظاہر ہے، اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس آدمی نے آپ کی کسی دعا میں اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کی فضیلت بیان کی ہو، اور یہ بات درست ہونے کے زیادہ قریب ہے۔
دوم: … دین میں سے استحسان اور عبادات میں بدعت سازی کا نام
بدعت حسنہ رکھنا بھی بدعات کے زمرے میں آتا ہے
حافظ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے اپنے رسالے ’’کلمۃ الاخلاص وتحقیق معناھا‘‘ (ص:۲۱) میں فرمایا:
یہ سب قلبی عمل کی طرف اشارہ ہے، اور شہادتین کے معنی کا اثبات ہے، ’’لا الہ الااللہ‘‘ کہنے کا اثبات یہ ہے کہ محبت، امید، خوف، توکل، استعانت، خضوع، انابت اور مانگنے کے حوالے سے دل اسے اللہ کے علاوہ کسی اور کی طرف مائل نہ کرے اور محمد اللہ کے رسول ہیں کا اثبات یہ ہے کہ اللہ کی صرف اسی طرح عبادت کی جائے جس طرح اللہ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مشروع قرار دیا ہے۔
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’کلمۃ الاخلاص‘‘ مقالے کے (ص ۲۱ پر) حاشیے میں حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کے کلام کے آخری جملے پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
اور یہ تب ہی ہوسکتا ہے کہ بدعت حسنہ کے نام سے دین میں استحسان اور عبادات میں بدعت سازی کا دروازہ بند کردیا جائے، کیونکہ بذات خود یہ نام بھی بدعات کے زمرے میں آتا ہے۔ نیز یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی کا انجام جہنم میں ہے‘‘[1] اور ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’الضعیفۃ‘‘ (۲/۱۷) میں حدیث رقم (۵۳۳) کے تحت فرمایا:
دنیا کے عجوبوں میں سے ہے کہ بعض لوگ اس حدیث سے اس پر دلیل لیتے ہیں کہ دین میں بدعت حسنہ بھی ہے اور اس کے حسنہ ہونے پر دلیل یہ ہے کہ مسلمان اسے بار بار کرتے ہیں اور یہ امر معلوم ہے کہ جس وقت بھی مسئلہ کھڑا ہوتا ہے تو یہ لوگ جلدی سے اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں، اور انہیں یہ نہیں معلوم کہ یہ حدیث تو موقوف ہے۔ قطعی دلائل کے خلاف اس (موقوف) حدیث سے دلیل لینا جائز نہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح سند
[1] اس حدیث کی عبارت یہ ہے: ’’مَا رَأَی الْمُسْلِمُوْنَ حَسَنًا فَہُوَ عِنْدَ اللّٰہِ حَسَنٌ‘‘ ’’جس چیز کو مسلمان اچھا سمجھیں وہ اللہ کے ہاں بھی اچھی ہے۔‘‘ یہ روایت ابن مسعود پر موقوف صحیح ہے۔جیسا کہ ہمارے شیخ نے اوپر درج کردہ مصدر میں فرمایا ہے۔ اس اثر (روایت) کی مزید تشریح اور تفصیلی بیان ’’بدعت سے متعلق احادیث وآثار کی تشریح‘‘ والی فصل میں آئے گا.