کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 90
بدعت حسنہ العز بن عبد السلام رحمہ اللہ نے ’’المساجلۃ‘‘ (ص:۸) میں فرمایا: ’’… اور اسی طرح ہر وقت اور ہر موقع پر نماز روزے کے ذریعے اللہ عزوجل کا قرب حاصل نہیں کیا جاتا، بسا اوقات جاہل ایسے عمل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتے ہیں جو اس سے دور کرتا ہے جبکہ انہیں شعور بھی نہیں ہوتا۔‘‘ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’المساجلۃ‘‘ (ص:۸) کے حاشیہ میں اس عبارت پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤلف رحمہ اللہ بدعت حسنہ کا وہ مفہوم نہیں لیتے جو متاخرین کے ہاں مروج ہے اور وہ ایسی چیز کے ساتھ اللہ کا قرب حاصل کرنا ہے جسے اللہ نے کسی دلیل کے ساتھ مشروع نہیں کیا کہ اس کی بنیاد مشروع ہے۔ اوّل: …اسلام میں کوئی بدعت حسنہ نہیں ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’ضعیف الترغیب والترہیب‘‘ (۱/۴۱) میں حدیث (رقم:۴۲) ’’…جس نے کوئی گمراہ کن بدعت جاری کی اللہ اور اس کے رسول اس (بدعت) کو پسند نہیں فرماتے۔‘‘[1] کے تحت فرمایا: … اسی لیے بعض بدعتیوں نے اسے تھام لیا اور اس کے مفہوم سے استدلال کیا کہ اسلام میں بدعت حسنہ بھی ہوتی ہے جسے اللہ اور اس کے رسول پسند فرماتے ہیں! تو اسے کہا جائے گا۔ ’’پہلے اصل ثابت کرو پھر بحث کرو۔‘‘ اور ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’الادب المفرد‘‘ میں ابوایوب انصاری کی روایت (رقم ۶۹۱)[2] کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کہا: ’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّبًا مُّبَارَکًا فِیْہِ…‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: پھر یہ کہ ابوایوب کی روایت میں بدعت حسنہ کے نام سے دین میں بدعت سازی کے جواز کی کوئی دلیل نہیں،
[1] ہمارے شیخ نے اس حدیث کو سخت ضعیف قرار دیا ہے، کیونکہ اس کا راوی شدید ضعیف ہے، اور دوسری بات یہ ہے کہ حدیث کے ان الفاظ کا کوئی شاہد نہیں. [2] ’’صحیح الادب المفرد‘‘ (ص۲۵۶۔۲۵۷) رقم(۵۳۴/۶۹۱).