کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 83
سرشت ہے، تاہم جس وقت مکالمہ و مناظرہ ان مسلمانوں میں سے اہل السنہ اور اہل بدعت کے درمیان ہوتا ہے تو پھر وہاں اسلوب میں کچھ شدت اور سختی ہوتی ہے۔ وہ اس بدعت کے ساتھ ان کی بدعت پر ملامت کرتا ہے، فرق یہی ہے کہ جب اہل السنہ ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے ہیں تو وہ ایک جہت سے ہوتا ہے، اور جس وقت اہل السنہ بدعتیوں سے مناظرہ کرتے اور ان کا ردّ کرتے ہیں تو وہ دوسری جہت سے ہوتا ہے۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ ان تمام امور میں ایک بات ملحوظ رکھیں کہ ہم اس کے ذریعے ایک گروہ کو دوسرے سے بہتر قرار نہ دیں، کسی ضرورت کی وجہ سے ایک کو چھوڑ کر دوسرے میں طعن نہ کریں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کو مدنظر رکھیں: ﴿اُدْعُ إِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ﴾ (النحل:۱۲۵) ’’اپنے رب کی راہ کی طرف حکمت سے دعوت دیں۔‘‘ جس وقت سنی، سنی کو جواب دیتا ہے تو زیادہ تر اس طرح ہوتا ہے کہ اس جواب میں حکمت ودانائی کی پابندی نہیں کی جاتی بلکہ اس میں اس سے بھی زیادہ اہم چیز کی پابندی کرنی چاہیے، جس کی طرف ہمارے رب عزوجل نے اپنے اس جیسے فرامین میں اشارہ کیا ہے: ﴿وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی﴾ (المائدۃ:۸) ’’کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس بات پر نہ اکسائے کہ تم عدل نہ کرو، عدل کرو وہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ ایک دوسرے کو جواب دیتے ہوئے زیادہ تر شروع ہی میں برا اسلوب اختیار کرلیا جاتا ہے، یہ … افسوس کی بات ہے … اب دور حاضر میں ایسی صورت میں ظاہر ہوا ہے کہ ہم نہیں چاہتے تھے کہ ہم اسے دیکھیں، وہ سنی معاشرہ، جسے ہم سلفی معاشرہ کہتے ہیں، میں واقع ہوتا دیکھتے ہیں۔ میں اس سوال کا یہی جواب دے سکا ہوں۔