کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 80
باندھنے کی ممانعت تحریم کے لیے نہیں، اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر مسجد قباء آیا کرتے تھے، اور انہوں نے تبصرہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجد قباء آنا محض انصار کے ساتھ تعلق بحال رکھنے، ان کے احوال اور ان کے آپ کے ساتھ جمعہ پڑھنے کے لیے نہ آنے کے متعلق معلوم کرنے کے لیے تھا، اور ہفتے کو خاص کرنے میں یہ راز ہے۔‘‘ میں کہتا ہوں: اس کے مطابق یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہفتے کے دن جانا مقصود بالذات نہ تھا، بلکہ مذکورہ حالات معلوم کرنے کی مصلحت کی خاطر تھا، اور اسی وجہ سے مسجد قباء کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں تمام ایام برابر ہیں، کیونکہ تخصیص کے قصد کا وجود نہیں، پس القاری نے الطیبی کے حوالے سے ’’المرقاۃ‘‘ (۱/۴۴۸) میں جو ذکر کیا ہے کہ ’’ہفتے کے دن زیارت کرنا سنت ہے۔‘‘ جس طرح چاہیے اس طرح نہیں۔[1]
[1] مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے بعض علماء سے پڑھا کہ ان کا یہ موقف ہے کہ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’کل سبت‘‘ سے مراد: ’’ہر ہفتہ‘‘ ہے جو سات دنوں کا ہوتا ہے، اور ہفتے کا دن (Saturday) مراد نہیں، اور انہوں نے اس کے لیے لغت سے دلیل لی جو اس وقت میرے ذہن میں ہے نہ مجھے یاد ہے کہ میں نے اسے کس کتاب میں پڑھا ہے، جسے مل جائے وہ اسے تحریر کر دے، تو جب یہ صحیح ہے تو پھر اس حدیث میں تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ پھر مجھے اس کا پتہ چلا کہ امام ابوشامہ الشافعی نے اپنی کتاب ’’الباعث علی إنکار البدع والحوادث‘‘ میں اسے ذکر کیا۔ انہوں نے اس میں جو ذکر کیا ہے وہ ہمارے تخصیص کے عدم جواز کے موقف کے مطابق ہے، آپ اس میں ساری گفتگو پڑھ سکتے ہیں، آپ رحمہ اللہ نے (ص ۳۴ پر) فرمایا: ’’ان عبادات کو اوقات کے ساتھ مختص نہیں کرنا چاہیے جنھیں شریعت نے مختص نہیں کیا، بلکہ نیکی کے تمام کام تمام اوقات میں بلاتخصیص و تقیید ہونے چاہئیں، عبادت کی جس نوع کو شریعت نے فضیلت و تخصیص دی ہے اس کے علاوہ کسی عبادت کو کسی اور عبادت پر فضیلت حاصل نہیں، معاملہ اگر یہ ہے تو وہی عبادت اسی فضیلت کے ساتھ مختص ہے کوئی دوسری نہیں، جس طرح کہ عرفہ اور عاشوراء کے دن کا روزہ، نماز تہجد اور رمضان میں عمرہ۔ اور کچھ ایسے اوقات ہیں جن میں شریعت نے تمام نیک اعمال کو فضیلت بخشی ہے، جس طرح کہ ذوالحجہ کے دس دن، شب قدر جو کہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے، یعنی اس میں عمل کرنا دیگر ہزار مہینوں میں، جن میں شب قدر نہ ہو، عمل کرنے سے بہتر ہے، لہٰذا اس میں کیا ہوا نیک عمل کسی دوسرے وقت میں اسی طرح کے کیے ہوئے نیک عمل سے بہتر ہوگا۔ حاصل یہ ہے کہ مکلف کو تخصیص کا منصب حاصل نہیں، بلکہ اس کا تعلق شارع سے ہے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کی خوبی تھی۔ پھر انہوں نے صحیحین میں حضرت عائشہ سے مروی روایت بیان کی کہ انہوں نے بیان فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (نفل) روزے رکھا کرتے تھے حتیٰ کہ ہم کہتے کہ آپ افطار (ناغہ) نہیں کریں گے اور آپ (نفل) روزے نہ رکھتے حتیٰ کہ ہم کہتے کہ آپ روزہ نہیں رکھیں گے، علقمہ کی روایت میں ہے، انہوں نے کہا: میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دن کی (کسی نیک عمل کے لیے) تخصیص کیا کرتے تھے؟ انہوں نے فرمایا: نہیں آپ کا عمل مسلسل ہوتا تھا۔ پھر انہوں نے بیان کیا: ’’محمد بن مسلمہ نے بیان کیا: تین مساجد کے بعد مسجد قباء کے علاوہ کسی اور مسجد کی فضیلت کا اعتقاد نہیں رکھنا چاہیے، انہوں نے کہا: انہوں نے اس کے لیے کسی خاص دن تیاری کرکے وہاں جانے کو ناپسند کیا ہے، کہ کہیں بدعت نہ ہو اور یہ کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگ اسے یادگار بنالیں اور اس کا قصد کریں یا اسے فریضہ قرار دے لیں اور کسی بھی وقت وہاں جانے میں کوئی مضائقہ نہیں بشرطیکہ اس میں کوئی بدعت نہ آنے پائے۔ میں کہتا ہوں: یہ صحیح ثابت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے قباء آیا کرتے تھے، لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر ہفتے اس کی زیارت کیا کرتے تھے اور ’’السبت‘‘ سے ’’اسبوع‘‘ (ہفتہ) کی تعبیر کی گئی ہے جس طرح اس سے جمعہ کی تعبیر کی گئی ہے اور اس کی مثال صحیحین میں انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء استسقاء کے متعلق مروی روایت ہے، انہوں نے اس میں بیان کیا: اللہ کی قسم! ہم نے ہفتہ بھر سورج نہ دیکھا۔ واللہ اعلم۔‘‘ (منہ).