کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 71
متعلق گفتگو کو طول دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔
ہمارے شیخ نے ’’صلاۃ التراویح‘‘ میں (ص:۷۶ پر)، تراویح کی رکعتوں کی تعداد میں اضافہ کا مسئلہ بیان کرنے کے دوران میں فرمایا:
’’…اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان کی تعداد میں اصافہ کرنا[1] اس (نماز تراویح) کی مخالفت ہے، کیونکہ عبادات میں حکم توقیف و اتباع پر ہے، نہ کہ تحسین عقلی اور بدعت پر…‘‘
۱۳: عبادات میں اصل منع ہے مگر یہ کہ کوئی دلیل ہو اور عادات (معمولات) میں اصل اباحت
ہے مگر یہ کہ کوئی دلیل ہو
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’التوسل‘‘ (ص:۳۰) میں فرمایا: اس بات سے آگاہی واجب ہے کہ اس کا وسیلہ کونی ہونا ثابت ہوا، تو اس کے مباح ہونے اور اس کی پابندی کرنے کے لیے یہی کافی ہے، کہ شریعت میں اس سے منع نہ کیا گیا ہو، اس کے متعلق فقہاء فرماتے ہیں: اشیاء میں اصل اباحت ہے، رہے شرعی وسائل تو انھیں اختیار کرنے کے لیے یہی کافی نہیں کہ شارع حکیم نے اس سے منع نہیں کیا، جیسا کہ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے، بلکہ ان کے لیے شرعی دلیل سے ثبوت ضروری ہے جو ان کی مشروعیت اور استحباب کو مستلزم ہو، کیونکہ استحباب، اباحت سے ایک اضافی چیز ہے، کیونکہ اس کا تعلق ان اعمال سے ہے جن کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جاتا ہے اور تقرب حاصل کرنے والے امور محض اس لیے ثابت نہیں ہوتے کہ ان کے متعلق ممانعت وارد نہیں ہوتی، اسی لیے سلف میں سے بعض حضرات نے فرمایا:
’’ہر وہ عبادت جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے نہ کی ہو تو تم بھی اسے عبادت قرار نہ دو۔‘‘[2]
یہ بات دین میں بدعت کی ممانعت سے متعلق وارد احادیث سے معلوم ہوتی ہے اور وہ مشہور ومعروف ہے، ایسے ہی موقع پر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’عبادات میں اصولاً ممانعت ہے مگر یہ کہ کوئی دلیل ہو اور عادات (معاملات) میں بنیادی طور پر اباحت ہے مگر یہ کہ کوئی دلیل ہو۔‘‘
یہ اصول یاد رکھیں کیونکہ یہ بہت ہی اہم ہے، جن امور میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے ان میں حق دیکھنے کے لیے یہ اصول آپ کی مدد کرے گا۔
[1] نماز تراویح کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور آپ کا طریقہ یہ ہے کہ وہ گیارہ رکعات ہیں۔
(ان میں تین وتر بھی شامل ہیں۔ شہباز حسن).
[2] یہ حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ اس کا حوالہ پیچھے گزر چکا ہے.