کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 68
’’میں کہتا ہوں: سنت محض تجربہ سے ثابت نہیں ہوتی، کسی چیز (بدعت) کو اس اعتقاد سے کرنے والا کہ وہ سنت ہے اپنے بدعتی ہونے (کے حکم) سے خارج نہیں ہوسکتا اور دعا کا قبول ہونا اس بات کی دلیل نہیں کہ قبولیت کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، کبھی اللہ مسنون توسل کے بغیر بھی دعا قبول فرمالیتا ہے، وہ بہترین رحم کرنے والا ہے، اور کبھی دعا کی قبولیت استدراج (مہلت و ڈھیل) کی خاطر بھی ہوسکتی ہے۔‘‘
ہمارے شیخ نے ضعیف الترغیب (۱/۲۱۶۔۲۱۷) سے حدیث رقم (۴۱۸)[1] کے تحت منذری کے قول کا تعاقب کرتے ہوئے حدیث رقم (۴۱۸) کے تحت فرمایا:
’’…اس طرح کی باتوں میں اعتماد تجربہ پر ہے، اسناد پر نہیں۔‘‘ میں کہتا ہوں: بلکہ اس جیسے امور میں تجربہ پر بھی اعتماد جائز نہیں، الشوکانی نے ’’تحفۃ الذاکرین‘‘ میں (ص:۱۴۰ پر) اس مؤلف کا کلام ذکر کرنے کے بعد کس قدر خوبصورت بات کی ہے:
’’میں کہتا ہوں: سنت محض تجربے سے ثابت نہیں ہوتی، اور کسی چیز (بدعت) کو اس اعتقاد سے کرنے والا کہ وہ سنت ہے اپنے بدعتی ہونے (کے حکم) سے خارج نہیں ہوسکتا اور دعا کی قبولیت اس بات کی دلیل نہیں کہ قبولیت کا سبب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، کبھی اللہ غیر مسنون توسل سے بھی دعا قبول کرلیتا ہے، وہ بہترین رحم کرنے والا ہے، اور کبھی دعا کی قبولیت استدراج کے طور پر ہوتی ہے، اس کے باوجود اس کے بارے میں جو کہا جاتا ہے کہ وہ حدیث ہے، سنت مطہرہ کی مخالفت ہے، سنت سے بلاشبہ ثابت ہے کہ رکوع و سجود میں قراء ت قرآن سے منع کیا گیا ہے، یہ سب سے بڑی دلیل ہے کہ یہ روایت موضوع ہے، خاص طور پر یہ کہ اس کی اسناد میں عمر بن ہارون بن یزید ثقفی بلخی متروک و متہم ہے، خواہ وہ حافظ ہو، ہوسکتا ہے کہ ابن مہدی نے اس کے حافظے کے حوالے سے اس کی تعریف کی ہو، اسی طرح اس کے شاگرد عامر بن خداش نے بھی، ہوسکتا ہے کہ یہ اس کی منکر روایات میں سے ہو جنھیں وہ روایت کرنے لگا، حاکم، بیہقی، واحدی اور ان کے بعدوالے ائمہ پر اس بات پر تعجب ہے کہ
[1] ہمارے شیخ نے اسے موضوع قرا دیا ہے، اور حدیث درج ذیل ہے: ’’تم رات یا دن کے وقت بارہ رکعتیں پڑھو، ہر دو رکعت کے درمیان تشہد پڑھو، پس جب تم اپنی نماز کے آخر پر تشہد میں بیٹھو تو اللہ عزوجل کی ثنا بیان کرو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو، سجدے کی حالت میں سات مرتبہ سورۂ فاتحہ پڑھو، سات مرتبہ آیت الکرسی، دس مرتبہ ’’ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ، لہ الملک، ولہ الحمد، وہو علی کل شی قدیر‘‘ پڑھو، پھر یہ دعا پڑھو: ’’اللہم انی أسالک بمعاقذ العز من عرشک، ومنتہی الرحمۃ من کتابک، واسمک الاعظم، وجدک الاعلی، وکلماتک التامۃ‘‘ پھر اپنی ضرورت کا سوال کرو، پھر سر اٹھاؤ، پھر دائیں بائیں سلام پھیرو، تم اسے نادانوں کو نہ سکھاؤ، کیونکہ وہ اس میں دعا کریں گے تو ان کی دعا قبول ہو جائے گی۔‘‘.