کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 62
ان سے موافقت کرلیں۔ وہ (اہل حق) رات اور دن کے اوقات میں جہاد و نزاع اور مدافعت و لڑائی کرتے رہیں گے اور اس طرح اللہ ان کے لیے اجر جزیل بڑھا دے گا اور انہیں ثواب عظیم عطا فرمائے گا۔‘‘ ۵:حکم شرعی کا استحباب، ضعیف حدیث سے ثابت نہیں ہوتا استحباب شرعی حکم ہے جو ضعیف حدیث سے ثابت نہیں ہوتا جیسا کہ ابن تیمیہ کی بعض تصنیفات وغیرہ میں ان کے کلام سے معلوم ہوتا ہے۔ (أحکام الجنائز، ص: ۲۴۳) ۶: فلاں کے امر سے یہ لازم نہیں آتا ... کہ وہ جائز نہیں یا یہ کہ وہ بدعت ہے، کہ جس نے اس کے متعلق کہا ہے وہ گمراہ اور بدعتی ہے ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اپنے مقالے ’’صلاۃ التراویح‘‘ (ص ۳۵۔۳۶) میں ’’موقفنا من المخالفین لنا فی ہذہ المسألۃ[1] وغیرھا‘‘ کے عنوان کے تحت فرمایا: جب آپ نے یہ جان لیا تو پھر جب ہم نے تراویح کی رکعتوں کی تعداد میں سنت پر اکتفا کرنے کو اختیار کیا اور اس پر اضافے کو عدم جواز قرار دیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم پہلے پچھلے ان علماء کو گمراہ یا بدعتی قرار دیتے ہیں جو یہ موقف نہیں رکھتے، جس طرح کہ بعض لوگوں نے یہ گمان کیا اور اسے ہم پر طعن کرنے کے لیے حجت بنایا! انہیں یہ وہم ہوا کہ ہمارے قول کہ فلاں کام جائز نہیں، وہ بدعت ہے، سے لازم آتا ہے کہ جس نے بھی اس کے جواز و استحباب کے متعلق کہا تو وہ گمراہ اور بدعتی ہے! ایسا ہرگز نہیں۔ یہ وہم باطل اور انتہائی جہالت ہے، اس لیے کہ وہ بدعت، جس کی وجہ سے بدعتی کی مذمت کی جاتی ہے اور اس پر بدعت کی زجر وتوبیخ کرنے والی احادیث کا حکم لاگو کیا جاتا تو یہ ہے: ’’دین میں ایجاد کردہ طریقہ جو شریعت سے مشابہت رکھتا ہو اور اس پر عمل کرنے سے اللہ سبحانہ کی عبادت کرنے میں مبالغہ کرنا مقصود ہو۔‘‘[2] تو جس نے عبادت کرنے میں مبالغہ کے قصد سے کوئی بدعت ایجاد کی، اور وہ جانتا ہے کہ وہ شریعت سے ثابت نہیں تو ایسا شخص ان احادیث کو اپنے خلاف حجت بناتا ہے، رہا وہ شخص جس نے لاعلمی میں بدعت کو اختیار کیا اور اس نے عبادت کرنے میں مبالغے کا ارادہ نہ کیا تو ان احادیث کا حکم ایسے شخص کو مطلق طور پر شامل نہیں ہے، ان احادیث سے ایسا شخص ہرگز مراد نہیں یہ تو ان بدعتیوں سے متعلق ہیں جو سنت کی اشاعت کی راہ میں کھڑے ہوئے ہیں اور وہ کسی علم و ہدایت اور کتابِ روشن کے بغیر ہی ہر بدعت کو اچھا سمجھتے ہیں، بلکہ وہ اہل علم کی تقلید کرتے ہوئے بھی ایسا نہیں کرتے، بلکہ وہ تو خواہشات کی پیروی میں اور عوام کو خوش کرنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔
[1] یعنی نماز تراویح کی رکعتوں کی تعداد کا مسئلہ. [2] ’’الإبداع فی مضار الابتداع‘‘ ص:۱۵۔ (منہ).