کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 61
(( لَا تَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ ظَاہِرِیْنَ عَلَی الْحَقِّ، لَا یَضُرُّہُمْ مَنْ خَذَلَہُمْ حَتَّی یَأْتِیَ اَمْرُ اللّٰہِ وَہُمْ کَذَالِکَ۔)) [1]
’’میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر ہوتے ہوئے غالب رہے گی۔ ان کو بے یارو مددگار چھوڑنے والا انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ حتیٰ کہ اللہ کا امر آجائے گا اور وہ اسی طرح ہوں گے۔‘‘
مومن راہِ ہدایت پر چلنے والوں کے کم ہونے سے نہیں گھبراتا اور ہلاکت کی راہوں میں غرق ہونے والے مخالفین کی کثرت اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی، شاطبی نے ’’الاعتصام‘‘ (۱/۱۱۔۱۲) میں فرمایا:
مخلوق میں اللہ کا یہ طریقہ رہا ہے کہ اہل باطل کے مقابلے میں اہل حق کم رہے ہیں۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ مَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤمِنِیْنَ﴾ (یوسف:۱۰۳)
’’اگر آپ کوشش بھی کرلیں تو اکثر لوگ ایمان نہیں لائیں گے۔‘‘
نیز فرمایا:
﴿وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ﴾ (سبا:۱۳)
’’میرے بندوں میں سے کم ہی شکر گزار ہیں۔‘‘
تاکہ اللہ اپنے اس وعدے کو پورا فرمائے جو اس نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا کہ اجنبیت کا وصف ان کی طرف لوٹ آئے گا،[2] اجنبیت اہل لوگوں کے مفقود ہونے یا ان کی قلت کی وجہ سے ہی ہوتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب معروف منکر جبکہ منکر معروف ہوجائے۔ سنت بدعت ہوجائے اور بدعت سنت کا درجہ حاصل کرلے، اہل السنۃ کی ملامت کی جائے اور انہیں سخت سست کہا جائے، جس طرح شروع میں بدعتی سے نفرت کے طور پر اہلِبدعت سے ایسا سلوک کیا جاتا تھا کہ کہیں گمراہی کی بات اکٹھی نہ ہوجائے اور اللہ نہیں چاہتا کہ وہ (گمراہی کی بات) جمع ہوجائے حتیٰ کہ قیامت قائم ہوجائے، تمام فرقے اپنی کثرت کے باوجود عادت اور سنی ہوئی بات کے طور پر اہل سنت کی مخالفت پر جمع نہیں ہوسکتے، بلکہ ضروری ہے کہ اہل السنہ کی جماعت ثابت رہے حتیٰ کہ اللہ کا حکم آجائے، اس کے علاوہ کہ گمراہ فرقوں نے ان سے بہت لڑائی کی اور ان کے ساتھ عداوت و بغض پر اتر آئے تاکہ وہ
[1] متفق علیہ، یہ حدیث متواتر ہے۔ امام بخاری ومسلم نے اسے بہت سے صحابہ سے روایت کیا ہے۔ ان صحابہ کی احادیث کو میں نے ’الصحیحۃ‘ (۲۷۰، ۱۱۶۵، ۱۹۵۵۔ ۱۹۶۲، ۱۹۷۱، ۲۴۴۲) اور تخریج فضائل الشام (۵۔۶) میں نقل کیا ہے۔ (منہ).
[2] اس سے مراد اسلام ہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی طرف اشارہ کرتے ہیں: ’’اسلام کا آغاز اجنبیت سے ہوا۔ وہ اجنبیت کی طرف لوٹ جائے گا، جس طرح اجنبی کے طور پر شروع ہوا تھا، پس اجنبیوں کے لیے خوش خبری ہو۔‘‘ (اسے صحیح مسلم (۱/۲۹۰) نے روایت کیا ہے اور یہ الصحیحۃ (۱۲۷۳) اور الروض النضیر (۳۵۰) وغیرہما میں بھی ہے۔ (منہ).