کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 60
ان کے ’’حسنہ‘‘ ہونے کا ذکر کیا، اسے کہا جائے گا: جن امور کا ’حسنہ‘ (اچھا) ہونا شرعی دلائل سے ثابت ہے، وہ یا تو غیر بدعت ہے، لہٰذا حدیث: ’’کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ‘‘ اور حدیث: ’’ہر عمل جس پر ہمارا امر نہ ہو تو وہ (عمل) مردود ہے۔‘‘ [1] میں عام کا عموم اپنے حال پر باقی رہے گا اور اس عام سے مخصوص ہوگا، اور عام مخصوص اس میں حجت ہے جو اس کے علاوہ ہو جو اس سے خاص کیا گیا ہے، پس جس نے کوئی نیا کام کیا اور اس کے متعلق خصوص کا بھی دعویٰ کیا تو تخصیص کے لیے کتاب اللہ یا سنت یا مجتہدین کے اجماع سے دلیل کی ضرورت ہے۔ عوام اور اکثر ملکوں کی عادت و رواج کی طرف نہیں دیکھا جائے گا…‘‘ ۴: مخالفت حق کے وقت انکار کرنا ضروری ہے، خواہ مخالفت کرنے والے زیادہ ہوں اور حق والے قلیل ہوں، جو کہ ایک جماعت ہے ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اپنے وقیع رسالے ’’صلاۃ العیدین‘‘ میں (ص:۳۹۔۴۱) کے آخر میں فرمایا: ’’لیکن یہ اس وقت بالکل واضح ہے کہ یہ ذمہ داری ان لوگوں پر عائد نہیں ہوتی جنہوں نے اس سنت کو زندہ کیا اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی، یہ تو ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو اس کی مخالفت پر ڈٹے رہے پس انکار تو ان کے خلاف جاتا ہے، رہا پہلا گروہ تو ان کی جماعت شرعی ہے، کیونکہ وہ اس سنت پر ہیں جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرقہ ناجیہ کے بارے میں فرمایا: ((ہِیَ الْجَمَاعَۃُ۔))[2] ’’وہ جماعت ہے۔‘‘ ایک دوسری روایت میں ہے: ((وَہِیَ مَا أَنَا عَلَیْہِ وَأَصْحَابِیْ۔)) [3] ’’اور وہ (جماعت) اس (سنت) پر ہے جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں۔‘‘ ان کی مخالفت کرنے والوں کی مخالفت انہیں نقصان نہیں پہنچا سکتی خواہ وہ تعداد میں ان سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] بخاری، الصلح، اذا اصطلحوا علی صلح جور فالصلح مردود، ح: ۲۶۹۷۔ مسلم، الاقضیۃ، نقض الاحکام الباطلۃ ورد محدثات الامور، ح: ۱۷۱۸ (شہباز حسن). [2] حدیث صحیح ہے، جیسا کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ودیگر نے فرمایا۔ اس کے کئی طرق ہیں، میں نے اسے الصحیحۃ (۲۰۴) میں نقل کیا ہے۔ (منہ). [3] امام ترمذی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ (۲۶۴۳)، اس کے اور بھی ’شاہد‘ ہیں جنہیں میں نے مذکورہ مرجع میں نقل کیا ہے۔ (منہ).