کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 56
دوم: بدعت کی تعریف بدعت کی لغوی تعریف صدیق حسن خان نے فرمایا: بدعت کی لغوی تعریف: ایسا عمل کرنا جس کی پہلے سے مثال نہ ہو۔ (الاجوبۃ النافعۃ، ص:۹۷) لغوی طور پر بدعت کا معنی العز بن عبد السلام رحمہ اللہ نے مساجلہ علمیہ، ص:۳ پر فرمایا: ’’…امابعد! بدعت کی تین اقسام ہیں۔‘‘ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے العز بن عبدالسلام کے کلام کے اس جملے (بدعت کی تین اقسام ہیں) پر تبصرہ کرتے ہوئے مساجلہ (ص:۳) کے حاشیہ پر فرمایا کہ یہ بدعت کے لغوی معنی میں ہوسکتا ہے، ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے عموم کے مطابق شرعی طور پر ہر قسم کی بدعت گمراہی ہے، فرمایا: (( کُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ، وَکُلُّ ضَلَالَۃٍ فِی النَّارِ۔)) [1] ’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی (کا انجام) جہنم ہے۔‘‘ بدعت کی اصطلاحی تعریف ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے صاحب ’’الابداع‘‘ ص ۱۵ سے اپنے کتابچے ’’صلاۃ التراویح‘‘ (ص۳۵۔۳۶) میں بدعت کی مندرجہ ذیل اصطلاحی تعریف نقل کی ہے: ’’وہ دین میں نکالا گیا نیا طریقہ ہے جو شریعت سے مشابہت رکھتا ہے، اس پر اس لیے عمل کیا جاتا ہے تاکہ اللہ سبحانہ کی عبادت کرنے میں مبالغہ کیا جائے۔‘‘
[1] مسلم، الجمعۃ، تخفیف الصلاۃ والخطبۃ، ح: ۸۶۷۔ نسائی، العیدین، کیف الخطبۃ، ح: ۱۵۷۹۔ ابن ماجہ، المقدمۃ، اجتناب البدع والجدل، ح: ۴۵ (شہباز حسن).