کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 54
کے حالات بیان فرمائیں! آپ نے فرمایا: ’’ہاں؛ وہ ہمارے نسب سے ہوں گے اور ہماری زبان بولیں گے…‘‘ [1] اسی لیے مسلمانوں کو ان بدعات کے متعلق، جو کہ دین میں داخل ہوگئیں، متنبہ کرنا انتہائی ضروری ہے، معاملہ اس طرح نہیں جس طرح کہ بعض لوگ سوچتے ہیں کہ اگر وہ توحید و سنت کی معرفت ہی حاصل کرلیں تو کافی ہے، اور شرکیات و بدعیات کے بیان سے تعرض کرنا ضروری نہیں، بلکہ اس کے متعلق بات نہیں کرنی چاہیے! یہ کوتاہ بینی توحید کی حقیقت، جو شرک کو جدا کرتی ہے، کے متعلق علم و معرفت کی کمی کا نتیجہ ہے اور اس سنت کے متعلق کم علمی کا نتیجہ ہے جو بدعت کو جدا کرتی ہے اور وہ امر درحقیقت ان بعض لوگوں کی جہالت پر دلالت کرتا ہے کیونکہ بدعت میں بسااوقات عالم شخص بھی مبتلا ہوجاتا ہے، اور یہ اس لیے ہے کہ بدعت کے اسباب بہت زیادہ ہیں، ان سب کے بیان کرنے کا یہ موقع نہیں، تاہم ان میں سے ایک سبب اور اس کی ایک مثال بیان کرتا ہوں، دین میں بدعت کا ایک سبب ضعیف اور موضوع احادیث ہیں، بعض اہل علم سے بھی کبھی یہ بات پوشیدہ رہ جاتی ہے اور وہ انہیں صحیح احادیث سمجھتے ہیں اور ان پر عمل کرتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتے ہیں، پھر اس بارے میں طلباء اور عوام الناس اس کی تقلید کرتے ہیں تو وہ سنت متبعہ بن جاتی ہے۔ تو یہ ہے معاملہ … مثلاً… شیخ فاضل علامہ محقق سید جمال الدین قاسمی نے اپنی علمی کتاب ’’إصلاح المساجد من البدع والعوائد‘‘ تالیف فرمائی، میں نے اس سے بہت زیادہ استفادہ کیا ہے، انہوں نے ان امور سے متعلق ایک فصل لکھی ہے جن سے متنبہ ہونا چاہیے، انہوں نے اس فصل میں بیس مسائل ذکر کیے ہیں اور ان میں سے مسئلہ (۱۶۔ بچوں کا مساجد میں آنا) ہے، انہوں نے فرمایا: حدیث میں ہے: ’’بچوں اور دیوانوں کو مساجد میں نہ لاؤ۔‘‘ [2] اور یہ اس لیے کہ بچے کی عادت کھیلنا ہے، وہ اپنے کھیل کی وجہ سے نمازیوں کو تشویش میں مبتلا کردے گا، بعض اوقات وہ اسے کھیل کا میدان بنالے گا، پس یہ مسجد کے (تقدس) کے منافی ہے، اس لیے اسے مسجد میں نہ آنے دیا جائے۔‘‘ (ص۲۰۵)۔ میں کہتا ہوں: یہ حدیث ضعیف ہے لہٰذا قابل حجت نہیں، ائمہ کی ایک جماعت نے اسے ضعیف قرار دیا ہے، جیسے عبد الحق اشبیلی، ابن الجوزی، منذری، بوصیری، ہیثمی اور عسقلانی وغیرہم، اس کے باوجود اس کا حال شیخ قاسمی پر مخفی رہا اور انہوں نے اس پر ایک شرعی حکم بنالیا اور وہ ہے مسجد کی تعظیم کی
[1] بخاری، الفتن، کیف الامر اذا لم تکن جماعۃ، ح: ۷۰۸۴۔ مسلم، الامارۃ، وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظہور الفتن…، ح: ۱۸۴۷۔ ابن ماجہ، الفتن، العزلۃ، ح: ۳۹۷۹۔ ابن ماجہ کی روایت مختصر ہے۔ (شہباز حسن). [2] ابن ماجہ، المساجد والجماعات، ما یکرہ فی المساجد، ح: ۷۵۰، اس حدیث کی اسناد موضوع ہیں۔ نیز یہ صحیح احادیث کے خلاف ہے۔ عہد نبوی میں بچے مساجد میں آتے تھے اور انہیں کوئی روکتا نہیں تھا۔ بچے مساجد میں آئیں گے تو نماز کی ادائیگی کا طریقہ سیکھیں گے۔ صحابہ کے بعض بچوں کا تو چھ سال کی عمر میں فرض نماز کی امامت کروانا ثابت ہے۔ (شہباز حسن).