کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 36
میں فرمایا:
’’الاوّلون سے وہ حضرات مراد ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور آپ کی صحبت اختیار کی اور ’بعد میں آنے والوں‘ سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی، اور یہ وہ سارے لوگ ہیں جو ان کے بعد تاقیامت ان کے منہج پر ہوں گے یہ پیچھے آنا اور عدم ملاقات مقام ومرتبہ میں ہوگا، بلکہ وہ ان سے کم مرتبہ کے ہیں لہٰذا اُن کا ان سے نہ ملنا رتبے کے اعتبار سے ہوگا اور دونوں قول آپس میں لازم و ملزوم ہیں، بے شک ان کے بعد والے ان سے مل نہیں سکیں گے، نہ مقام ومرتبہ میں اور نہ زمانے کے لحاظ سے، لہٰذا یہ دونوں قسم کے لوگ سعادت مند ہیں اور رہا وہ شخص جس نے اللہ کی اس ہدایت کو، جس کے ساتھ اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، قبول کیا نہ اس کے ساتھ عزت پائی تو ایسا شخص تیسری قسم سے ہے، اور وہ یہ لوگ ہیں: ﴿الَّذِیْنَ حُمِّلُوْا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا﴾ (الجمعۃ: ۵) ’’ان لوگوں کی مثال، جن کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا تھا پھر انہوں نے اس پر عمل نہ کیا۔‘‘
خلاصہ: اللہ عزوجل نے جس طرح تمام لوگوں میں سے اپنے نبی کو منتخب فرمایا، اسی طرح اس نے آپ کے اصحاب کو منتخب فرمایا، اللہ سبحانہ نے ان پر احسان فرمایا کہ ان کو جہالت کے بعد علم سکھایا اور گمراہی کے بعد انھیں ہدایت کی دولت سے نوازا اور یہ سب سے بڑا احسان ہے، اس کے مقابلے میں کسی دوسرے احسان کی کوئی حیثیت نہیں اور بندوں کو چاہیے کہ وہ اس کی قدر کریں۔[1]
جو کچھ بیان ہوچکا اس سے ظاہر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کی خیر تزکیہ اور علم میں رکھ دی ہے، لیکن، ذمہ داران انھیں کہاں سے حاصل کریں۔ ان کے پائے جانے کا سبب کیا ہوسکتا ہے، خاص طور پر اس دور میں جب دین اجنبی ہوچکا ہو؟ سلف صالحین کے منہج پر چلنے والے اوّل و آخر تمام مصلحین نے اسی کی دعوت دی ہے، ان مصلحین میں سے آخر پر ہمارے شیخ محدث علامہ محمد ناصر الدین بن نوح النجاتی الالبانی رحمہ اللہ [2] ہیں، انہوں نے امت کی اصلاح کے لیے تزکیہ و تربیہ کے شعار کو بلند کیا اور اس شعار میں خالص صحیح علم پائے جانے کے وسائل ہیں، جس کے ذریعے اس خالص صاف و شفاف اسلام کی معرفت حاصل ہوتی ہے جسے اللہ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر نازل فرمایا، اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ علم شرعی کو ان آلائشوں، حماقتوں، باطل تصورات اور بدعات سے صاف کردیا جائے، جو
[1] مفتاح دار السعادۃ (۶۳).
[2] شیخ رحمہ اللہ نے معہد شرعی اردن میں تیس سال سے زیادہ عرصہ پہلے اس موضوع پر خصوصی لیکچر دیا تھا جسے مکتبہ اسلامیہ لاہور نے ۱۴۲۱ھ میں ’’التصفیۃ والتربیۃ وحاجۃ المسلمین الیہما‘‘ کے عنوان سے شائع کیا.