کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 35
اچھی سیرت تو ﴿یُزَکِّیْہِمْ﴾ (البقرہ:۱۲۹) سے ماخوذ ہے اور دین میں سمجھ بوجھ ﴿وَیُعَلِّمُہُمْ﴾ (آل عمران: ۱۶۴) سے ماخوذ ہے، نتیجہ یہ نکلا کہ انسان نفاق سے بری نہیں ہوسکتا حتیٰ کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان کردہ دو اہم چیزوں میں سے کچھ نہ کچھ اپنی ذات میں راسخ کرلے اور یہ وجوب عین کے طور پر ہے۔
۴: امت کو مکمل سعادت تبھی ملے گی جب وہ یہ خصلتیں مکمل طور پر اپنا لے، علم کا کمال تو یقین ہے اور تزکیہ کا کمال، اپنی تمام انواع کے ساتھ، صبر ہے:
۱: نیک کاموں پر صبر۔
۲: گناہوں اور برے کاموں کو ترک کرنے پر صبر۔
۳: اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت و اصلاح کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات و مصائب پر صبر۔
۴: اللہ کی قضاء و قدر پر صبر۔
اور ہم حقیقت سے دور نہیں جائیں گے اگر ہم ثابت کردیں کہ لوگوں کے خبطی ہونے اور ان کے ضیاع کا سبب ان کا اپنے اندر ان دو امور کا بقدرِ کفایت وضرورت نہ پایا جانا اثبات ہونا چاہیے وہ نہیں ہے اور امت پر واجب ہے کہ اس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہوں، وہ آپ کے کار منصبی پر عمل کریں، تزکیہ کریں اور تعلیم دیں، تب مومن اللہ تعالیٰ کی نصرت سے خوش ہوں گے۔ ائمہ دین (ربانی اور باعمل علماء) وہ حضرات ہیں جو علم و تزکیہ کے بلند اور انتہائی درجات پر فائز ہیں اور وہ … جس طرح ہم نے ثابت کیا … صبر اور یقین ہیں۔[1]
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ جَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً﴾ (السجدۃ: ۲۴) ’’ہم نے ان میں سے امام بنائے۔‘‘ یعنی ائمہ دین ﴿لَمَّا صَبَرُوْا وَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ﴾ (السجدۃ: ۲۴) ’’جب انہوں نے صبر کیا اور وہ ہماری آیات پر یقین رکھتے تھے۔‘‘ پس انہوں نے مکمل طور پر تزکیہ و علم حاصل کیا۔
۵: سابقہ تمام آیات میں، بالخصوص اس آیت میں جو کہ سورۃ الجمعہ میں ہے، تزکیہ و تعدیل ان تمام حضرات کو متضمن ہیں جنھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں آپ کی دعوت کو قبول کیا اور یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں فرائض منصبی ادا کرنے کا اہتمام کیا اور اللہ عزوجل نے اس کے لیے آپ کو اپنی سنت کونی اور شرعی کی توفیق سے نوازا، اور آپ پر ایمان لانے والے اور آپ کی اتباع کرنے والے کو گمراہی سے نکالا، اور یہ ان میں اور ان کے ہاں تزکیہ وعلم موجود ہونے سے ہوا، ابن القیم رحمہ اللہ [2] نے سورۃ الجمعہ کی تفسیر
[1] اسی لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ بار بار فرمایا کرتے تھے: صبر و یقین کے ساتھ دین کی امامت ملتی ہے.
[2] الرسالۃ التبوکیۃ (۶۳).