کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 34
اس تقیید کے ساتھ وہ قول مکمل ہوتا ہے کہ اصل… یعنی: زیادہ غالب فسق بعد والے زمانوں میں ہے، اس حکم کو کلی طور پر نہیں لیا جاسکتا کہ اصل ایمان ہے اور نہ یہ کہ اصل فسق ہے، اوّل (اصل ایمان ہے) کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ پہلے تین زمانوں (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دور، اس کے بعد کا زمانہ اور اس کے بعد کا زمانہ) میں اصول ہے اور دوسرے کے متعلق یوں کہا جائے گا: کہ وہ (فسق) ان تین زمانوں کے بعد کے لیے بنیاد ہے۔ الجلال نے ’’نظام الفصول‘‘ میں اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ﴿وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّکُوْرُ﴾ (السبأ: ۱۳) ’’اور میرے بندوں میں شکر کرنے والے بہت ہی کم ہیں۔‘‘ اور اس فرمان: ﴿وَ مَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَ لَوْ حَرَصْتَ بِمُؤمِنِیْنَ﴾ (یوسف:۱۰۳) ’’خواہ آپ کتنا ہی چاہیں اکثر لوگ ایمان لانے والے نہیں۔‘‘ سے استدلال کیا ہے کہ اساس فسق ہے۔
میں کہتا ہوں کہ یہ بالکل واضح ہے کہ یہ (استدلال) صحیح نہیں، ان آیات سے مراد یہ ہے کہ کفار کی نسبت مومن کم ہیں، جس طرح کہ آیات کا سیاق اس پر دلالت کرتا ہے، اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ غیر عادل مسلمانوں کی نسبت مومن قلیل ہیں اور اسی طرح اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ وہ فرد مجہول کو زیادہ عام اور اغلب پر محمول کرتا ہے، اور وہ یہ کہ وہ ایسے مسلمان کو جس کا عادل ہونا مجہول ہو فسق پر محمول کرتا ہے جو صحیح نہیں۔‘‘ کیونکہ ہمیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ ہم کسی ایسے مسلمان کو جس کا عادل ہونا مجہول ہو اس لیے فاسق قرار دیں کہ اغلب فسق ہے، کیونکہ یہ فاسق قرار دینا کسی نص یا قیاس کی دلیل کے بغیر ہے جبکہ ان کا یہ قول بھی ہے: ’’کسی قطعی دلیل کے بغیر کسی کو فاسق قرار نہیں دیا جاتا۔‘‘ بلکہ ہم کہیں گے: ایسا مسلمان جس کا عادل ہونا مجہول ہو احتمال پر باقی رہے گا، ہم اس کے فاسق ہونے کا حکم لگاتے ہوئے اس کی خبر ردّ کریں گے نہ اس کے عادل ہونے کا حکم لگاتے ہوئے اس کی خبر قبول کریں گے۔ بلکہ وہ احتمال پر باقی رہے گا حتیٰ کہ اس کے متعلق تحقیق کی جائے گی اور واضح ہوجائے کہ وہ دونوں امور میں سے کس سے متصف ہے اور یہ ایسے شخص کی مراد ہونی چاہیے جو یہ کہتا ہے کہ اصل فسق ہے اور مصنف کا قول کہ بنیاد عدالہ (راست روی، سچ گوئی) ہے، جو تقاضا کرتا ہے کہ وہ تعدیل کا محتاج نہیں، اس لے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں، لہٰذا وہ اصل کافی ہے۔‘‘
میں کہتا ہوں کہ الصنعانی نے جو یہ موقف اختیار کیا ہے بلاشک وہ حق ہے، ممکن ہے کہ اس بیان سے ان دنوں اس مسئلہ کے متعلق طالب علموں کے درمیان پایا جانے والا اشکال زائل ہوجائے۔ واللّٰہ المستعان۔
۳: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا درج ذیل فرمان بیان سابق کو مؤکد کرتا ہے:
’’دو خصلتیں کسی منافق میں اکٹھی نہیں ہوسکتیں: اچھی سیرت اور دین میں سمجھ بوجھ۔’‘(الصحیحۃ: ۲۷۸)