کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 32
اس آیت سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
۱: انسان نے جب شرعی پابندیوں کی ذمہ داری قبول کی تو وہ ظالم وجاہل تھا اور یہ دونوں وصف بترتیب مذکور تزکیہ اور تعلیم سے زائل ہوں گے، پس امانت کی ذمہ داری قبول کرنے والے کی دو خامیوں (ظالم، جاہل) کی موجودگی میں تزکیہ کو علم پر مقدم کرنا ہم آہنگ ہے۔
۲: انسان بنیادی طور پر ظالم وجاہل ہے، تا آنکہ شرعی طرق کے ذریعے اس کے خلاف دلیل قائم ہوجائے۔
ابن تیمیہ نے ’’مجموع الفتاویٰ (۱۵/۳۵۷) میں فرمایا:
’’رہا وہ شخص جو کہتا ہے کہ مسلمانوں میں بنیادی طور پر عدل وانصاف پایا جاتا ہے تو یہ باطل ہے، بلکہ انسان میں بنیادی طور پر ظلم و جہالت پائی جاتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَ حَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا﴾ (الاحزاب:۷۲)
اور محض شہادتین کے اقرار سے انسان ظلم و جہالت سے عدل و انصاف کی طرف منتقل نہیں ہوجاتا۔‘‘
اور انہوں نے مجموع الفتاویٰ (۱۸/۱۶۹) میں یہ بھی فرمایا:
’’جب عدل سے پہلے علم کا ہونا بہت ضروری ہے تو جس کے پاس علم نہیں وہ نہیں جانتا کہ عدل کیا ہے؟ انسان ظالم جاہل ہے البتہ وہ اس سے مستثنیٰ ہے جس پر اللہ نظر کرم فرمائے تو وہ عالم وعادل بن جائے۔ لوگوں کی قاضی وغیرہ کے حوالے سے تین اصناف ہیں: ظالم عالم، ظالم جاہل، یہ دونوں تو جہنمی ہیں… اور دو کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہر شخص قاضی ہے، خواہ وہ صاحب حرب اور عدالت کا متولی ہو یا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے متعلق احتساب کے لیے مقرر ہو، حتیٰ کہ وہ شخص (بھی قاضی ہے) جو بچوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہے …‘‘
اور ابن ابی تغلب نے ’’نیل المآرب‘‘ (۲/۴۵۴) میں فرمایا:
’’شیخ نے فرمایا: جس نے کہا: انسان میں بنیادی طور پر عدل و انصاف پایا جاتا ہے۔ اس نے غلطی کی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًا﴾ کے مطابق اس میں بنیادی طور پر ظلم و جہالت پائی جاتی ہے۔‘‘
بہت سی مشہور منقولات [1] میں سے اس اہم مسئلہ کے متعلق الصنعانی نے ’’توضیح الافکار‘‘ (۲/۱۴۹۔۱۵۰) میں خوبصورت انداز میں درست بات بیان کی ہے، انہوں نے ’’تنقیح الأنظار‘‘ کے مؤلف کے قول ’’عدل و انصاف اہل اسلام میں اساس کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا:
[1] ان میں سے بعض کا عنقریب تذکرہ ہوگا.