کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 31
’’وہ وہی ہے جس نے ان پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بنا کر بھیجا جو انہیں اس کی اللہ کی آیات پڑھ پڑھ کر سناتا ہے، انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت سکھاتا ہے اگرچہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا ہوں۔‘‘ پس علم اور تزکیہ وہ دو اہم چیزیں ہیں جن کی ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی اور اللہ نے ان کی دعا قبول فرمائی، لیکن اس نے تزکیہ کا تذکرہ علم سے پہلے کیا، اس لیے کہ نفس کو تزکیہ کے مرحلے سے گزارا جائے تو وہ علم حاصل کرتا ہے اور علم اسی وقت بار آور ہوتا ہے جب صاحب علم اپنے آپ کو پاکیزہ بناتا ہے، اور یہ اس کے قواعد و احکام کے ساتھ ہی مکمل ہوتا ہے، بہرحال اللہ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کو احسان قرار دیا ہے۔ یہاں اہم اصولی امور کا لحاظ رکھا جائے گا جو طالب علموں کے ضرور مدنظر ہونے چاہئیں، اور وہ درج ذیل ہیں: ۱: خیر و بھلائی کی بنیاد علم اور تزکیہ ہے، جبکہ شر کی اساس اور اس کی طرف پہنچانے والی ہر راہ انہی دونوں (علم و تزکیہ) سے روکی جاسکتی ہے، اور شر کی جڑ شہوت و شبہہ ہے، شہوت کو روکنے والی چیز تزکیہ ہے اور شبہہ علم سے زائل ہوتا ہے۔ جس طرح یہاں ایک طرح سے شہوت و شبہہ کے درمیان مضبوط تعلق ہے اسی طرح علم و تزکیہ کے درمیان بھی مضبوط تعلق ہے۔ ۲: گمراہی کی سب سے بری قسم شہوات کو شبہات کے ساتھ ملانا ہے، اسی لیے اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت اور آپ کے لوگوں کے تزکیہ و تعلیم کا بیڑہ اٹھانے سے پہلے لوگوں کی حالت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ﴿کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ﴾ (اٰل عمران: ۱۶۴) ’’وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔‘‘ اور اس (کھلی گمراہی) کا سبب ان میں پایا جانے والا ظلم اور جہالت ہے۔ تزکیہ نہ ہو تو ظلم وجود میں آتا ہے اور علم نہ ہو تو پھر جہالت جنم لیتی ہے، اور ان دونوں کا ایک ساتھ ہونا ’’کھلی گمراہی‘‘ ہے۔ ۳: جب انسان نے امانت کو اٹھالیا تو اللہ نے اسے ظالم اور جاہل قرار دیا، اس کا تذکرہ اس فرمانِ الٰہی میں ہے: ﴿اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ الْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَہَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْہَا وَ حَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًاo﴾ (الاحزاب:۷۲) ’’ہم نے امانت کو آسمانوں پر، زمین پر اور پہاڑوں پر پیش کیا تو سب نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے اور انسان نے اسے اٹھالیا (اپنے ذمے لے لیا) بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔‘‘