کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 249
’’جب ابو طالب فوت ہوئے تو میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا‘ تو میں نے عرض کیا: آپ کے بوڑھے (گمراہ) چچا وفات پا گئے ہیں، (انہیں کون دفن کرے گا)، آپ نے فرمایا:
’’جاؤ اسے دفن کرو، پھر کوئی کام نہ کرنا حتیٰ کہ میرے پاس پہنچ جاؤ‘‘ انہوں نے کہا: وہ تو شرک کی حالت میں فوت ہوئے ہیں، آپ نے فرمایا: ’’جاؤ اسے دفن کرو…‘‘
ہمارے شیخ نے مصدر سابق (ص: ۱۶۹) میں اس حدیث پر حاشیہ لکھتے ہوئے فرمایا:
یہ اس بارے میں صریح ہے کہ ابو طالب کفر و شرک کی حالت میں فوت ہوئے۔ اس بارے میں کوئی احادیث ہیں، ان میں سے سعید بن حزن کی روایت ہے …، حافظ رحمہ اللہ نے اس کی شرح کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں نے ایک جزء دیکھا جسے بعض اہل رفض نے جمع کیا ہے، اس میں زیادہ تر احادیث ضعیف و کمزور ہیں جو ابو طالب کے اسلام پر دلالت کرتی ہیں، اس سے کوئی چیز ثابت نہیں ہوتی، وباللّٰہ التوفیق، میں نے انہیں ’’الاصابہ‘‘[1] سے ابو طالب کی سوانح حیات میں مختصراً بیان کیا ہے۔
۲۴:… شیعہ اور نمازیں جمع کرنا:
ہمارے شیخ نے ’’الصحیحۃ‘‘ (۶/۸۱۷) میں فرمایا:
… صرف حرج ہونے کی صورت میں نمازیں جمع کرنا جائز ہے، بصورت دیگر نہیں، اور یہ افراد اور ان کے حالات کے مختلف ہونے کے ساتھ مختلف ہوتا رہتا ہے، ہو سکتا ہے پھر سلف میں سے اسے مطلق طور پر جائز قرار دینے والوں نے اس طرف اشارہ کیا جیسے میں نے ذکر کیا جس وقت انہوں نے شرط قائم کی کہ اسے عادت نہ بنایا جائے جس طرح شیعہ کرتے ہیں۔[2]
[1] دیکھیں ’’الفتح‘‘ (۷/۱۹۵) ’’السیر‘‘ (۱۵/۵۶۶) اور میری کتاب ’’کتب حذر منھا العلماء‘‘ (۱/۲۵۲، ۲/۱۴۶۔۱۶۵).
[2] شیعہ سمجھتے ہیں کہ زوال آفتاب سے لے کر غروب آفتاب تک ظہر و عصر کے لیے وقت ہے، وہ ظہر کو اس کے اوّل سے اس کی ادائیگی کی مقدار کے ساتھ خاص کرتے ہیں، اور اسی طرح عصر کو اس کے آخر سے اور ان دونوں کے درمیان جو وقت ہے مشترک ہے، اسی طرح جب سورج غروب ہوجاتا ہے مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے، اور وہ اس کے اوّل سے تین رکعتوں کی تعداد کے مطابق خاص کرتے ہیں، پھر اس میں عشاء کو شریک کرتے ہیں حتی کہ نصف شب تک اور وہ عشاء آخرہ کو آخری وقت سے چار رکعتوں کی مقدار کے برابر خاص کرتے ہیں۔‘‘ دیکھیں: ’’شرائع الاسلام‘‘ (۱/ ۶۰۔۶۱) اسی لیے ان سے مذہب شیعہ ثابت ہے، وہ دو نمازوں: ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو مطلق طور پر جمع کرنے کا جواز ہے، یعنی سفر و حضر ہو، ہو یا عذر نہ ہو، جمع تقدیم یا جمع تاخیر، اور انہوں نے اس بات میں کتابچے تصنیف کیے ہیں۔
پس اہل السنہ کا موقف اس کے خلاف ہے، یعنی کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ پوری نماز کو یا اس کے کچھ حصے کو اس کے وقت ہونے سے پہلے پڑھے کیونکہ یہ اللہ کی حدود سے تجاوز کرنا ہے، اور اس پرنماز اس کے وقت ہونے پر واجب ہوتی ہے، اس لیے کہ وقت کے ہونے پر اس کا حکم ہوتا ہے، اور عذر کی خاطر نمازیں جمع کرنا جائز ہے۔اس کی تحدید میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ کئی ایک سلف کا مؤقف ہے کہ معتبر ضرورت کے لیے یہ مطلق طور پر جائز ہے، میں نے اسے تفصیل کے ساتھ ایک الگ جائزے میں بیان کیا ہے، اور اس کی حقیقت واضح کی ہے۔ وہ کئی مرتبہ چھپ چکا ہے، وللہ الحمد والمنۃ.