کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 247
وہ ان گمراہوں میں سے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے ڈرایا گیا: ﴿وَ مَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَ یَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَ سَآئَ تْ مَصِیْرًا ﴾ (النساء: ۱۱۵) ’’جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرتا ہے اور مومنوں کی راہ کی اتباع نہیں کرتاتو وہ جدھر پھرتا ہے ہم اسے اس طرف پھیر دیتے ہیں اور اسے جہنم پہنچا دیتے ہیں اور وہ برا ٹھکانا ہے۔‘‘ ۱۸:… رافضہ اور ان کا علی رضی اللہ عنہ اور آل بیت رضی اللہ عنہم کے بارے میں غلو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے براء ت کرنا: ہمارے شیخ نے ’’مشکاۃ‘‘ (۱/۱۶۹۸)[1] میں حدیث رقم (۱۰۱۵) کے تحت فرمایا: اور یہ حدیث صحیح [2] جسے علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رافضہ کی گمراہی پر واضح دلیل ہے جو شیخین جلیلین (ابو بکر و عمر) رضی اللہ عنہما کو برا بھلا کہتے ہیں، اور وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ اور ان کے پیروکاروں سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ جہنم پر کتنے دلیر ہیں!! امام ’’الطحاویہ‘‘ کے مصنف نے فقرہ (۹۳) میں فرمایا: ’’ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے محبت کرتے ہیں اور ہم ان میں سے کسی ایک کی محبت میں کوتاہی نہیں کرتے۔‘‘ ہمارے شیخ نے ’’اس کی شرح و تعلیق‘‘ (ص ۸۱) پر فرمایا: ہم ان میں سے کسی ایک کی محبت میں حد سے تجاوز نہیں کرتے کہ ہم ان کی عصمت کا دعویٰ کریں، جس طرح شیعہ علی رضی اللہ عنہ اور ان کے علاوہ اپنے دیگر ائمہ کے بارے میں کرتے ہیں۔ پھر طحاوی نے فقرہ (۹۳) میں فرمایا: ’’اور ہم ان میں سے کسی ایک سے بھی لا تعلق نہیں ہوتے۔‘‘ ہمارے شیخ نے اس کی شرح وتعلیق (ص۸۱۔ ۸۲) میں تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا: یعنی جس طرح رافضہ نے کیا، ان کے نزدیک براء ت کے بغیر ولاء (دوستی، حمایت ) نہیں، یعنی: اہل بیت سے دوستی نہیں ہو سکتی حتی کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے برائت و لا تعلقی کا اعلان کیا جائے، جبکہ اہل السنہ سب سے دوستی و محبت رکھتے ہیں، اور وہ جس مقام و مرتبے کا استحقاق رکھتے ہیں وہ عدل وانصاف کے ساتھ وہ
[1] ’’ھدایۃ الرواۃ الی تخریج احادیث المصابیح و المشکوٰۃ‘‘ (۵:۳۹۳۔ ۳۹۴). [2] محمد بن حنفیہ نے بیان کیا: میں نے اپنے والد (علی رضی اللہ عنہ ) سے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کون شخص سب سے بہتر ہے؟ انہوں نے کہا: ابوبکر۔ میں نے کہا: پھر کون؟ انہوں نے فرمایا عمر۔ اور اس اندیشے کے پیش نظر آپ کہیں یہ نہ کہہ دیں (پھر) عثمان، میں نے کہہ دیا: پھر آپ؟ انہوں نے فرمایا: میں تو مسلمانوں میں سے ایک عام آدمی ہوں۔ (صحیح بخاری).