کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 168
جب انہوں نے اس بارے میں جو کہنا تھا کہا، تو پھر وہ کس وجہ سے نہیں بولتے؟! [1] ابوداؤد نے اسے ان سے سنا: جیسا کہ ’’مسائل ابی داؤد‘‘ (ص۲۶۳۔ ۲۶۴) میں ہے۔ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اپنی عظیم کتاب ’’السلسلۃ الصحیحۃ‘‘ (۷/۴۷۵) حدیث رقم (۳۱۶۱)[2] کے تحت فرمایا: ’’اور مقصود یہ ہے کہ آیت مذکور: ﴿أَأَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَآئِ﴾ (الملک:۱۶) ’’کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو جو آسمان پر ہے۔‘‘ کا معنی ہے: یعنی جو آسمان پر ہے، یعنی: جو عرش پر ہے، جیسا کہ ابن عبد البر (۷/۱۲۹، ۱۳۰، ۱۳۴) اور دیگر نے بیان کیا، جیسے بیہقی نے ’’الاسماء‘‘ (۳۷۷) میں بیان کیا، انہوں نے فرمایا: ’’یعنی جو آسمان کے اوپر ہے۔‘‘ یہ وہ تفسیر ہے اس کے بغیر اور کچھ کہنا ممکن ہی نہیں، یہ تفسیر اس شخص کے لیے جس نے قرآن و سنت سے بہت سی نصوص کے معانی مان لیے، جو اللہ کے لیے فوقیت و علو کے اثبات کی دلیل ہیں اور وہ علو ویسے ہی ہے جیسے اس کی عظمت کے لائق ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے بارے میں فرمایا: ﴿یَخَافُوْنَ رَبَّہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ﴾ (النحل: ۵۰) ’’وہ اپنے رب سے ڈرتے ہیں جو ان کے اوپر ہے۔‘‘ اور اس کے علاوہ بھی کئی آیات ہیں جو مشہور ومعروف ہیں، اہل السنۃ والجماعۃ کا یہی موقف ہے اور یہ موقف معتزلہ اور جہمیہ کے خلاف ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ عزوجل ہر جگہ ہے[3] اور وہ عرش پر نہیں ہے۔ جیسا کہ ’’التمہید‘‘ (۷/۱۲۹) میں ہے۔
[1] میں کہتا ہوں: اگر شیخ مقبلی اس سے آگاہ ہوتے تو وہ امام احمد پر جو برسے ہیں وہ نہ برستے۔ (منہ). [2] وہ حدیث یہ ہے: ’’اسے آزاد کردے وہ تو مومنہ ہے۔‘‘ یعنی وہ لونڈی جس نے گواہی دی کہ اللہ آسمان پر ہے، اللہ تعالیٰ کے اپنی مخلوق سے اوپر ہونے کے ثبوت کے بارے میں یہ حدیث بہت عظیم اور شان دار ہے، ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اس حدیث پر تحقیق و تصحیح کے طور پر تقریباً چوبیس صفحات لکھے ہیں. [3] ہمارے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ’’صحیح الأدب المفرد‘‘ (ص۲۸۲۔۲۸۳، رقم: ۵۸۰۔۷۵۳۔ ط: مکتبہ الدلیل)، میں حدیث: یَنْزِلُ رَبُّنَا ۔ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی ۔ فِیْ کُلِّ لَیْلَۃٍ اِلَی السَّمَائِ الدُّنْیَا… ’’ہمارا رب تبارک و تعالیٰ ہر رات قریبی آسمان پر نزول فرماتا ہے…‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ صحیح متواتر ہے، جیسا کہ حفاظ حدیث نے اس کے متعلق گواہی دی، ان میں سے ابن عبد البر بھی ہیں، انہوں نے ’’التمہید‘‘ (۷/۱۲۸)،میں ذکر کیا ہے اور انہوں نے اس میں بیان کیا: ’’اس میں دلیل ہے کہ، اللہ عزوجل ساتوں آسمانوں کے اوپر عرش پر ہے، جیسا کہ محدثین کی جماعت نے بیان کیا اور یہ معتزلہ اور جہمیہ کے قول ’’اللہ عزوجل ہر جگہ موجود ہے‘‘ کے خلاف ان کی دلیل ہے۔ میں (البانی) نے کہا: وہ ان کے پیروکاروں میں سے ہے جو ان کے اس قول کی وجہ سے ان کی تکفیر کا دعویٰ کرتا ہے، پھر وہ ایسی چیز کی صراحت کرتا ہے جو اس سے بھی بری ہے، وہ ہے اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار، وہ اسے ایسی صفات سے متصف کرتا ہے جو معدوم چیز کی ہوتی ہیں، وہ کہتا ہے: ’’وہ عالم میں داخل ہے نہ اس سے باہر‘‘! یہ ظالم جو کہتے ہیں اللہ عزوجل اس سے پاک و برتر ہے.