کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 164
۵: استواء [1] کی کیفیت کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے
عقیدہ طحاویہ کے شارح ابن ابوالعز حنفی رحمہ اللہ نے نقل کیا کہ جب امام مالک رحمہ اللہ سے اللہ تعالیٰ کے فرمان: ﴿ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (الاعراف:۵۴) وغیرھا کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: ’’استواء معلوم ہے، جبکہ کیفیت مجہول ہے۔‘‘
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’شرح العقیدۃ الطحاویۃ‘‘ از ابن ابوالعز الحنفی (ص۱۲۴) کے حاشیے میں فرمایا، اس کی نص یہ ہے:
مؤلف نے امام مالک رحمہ اللہ کے جواب کے صرف اسی حصے پر اکتفا کیا، مکمل یہ ہے: ’’اس پر ایمان لانا واجب ہے، اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔‘‘ یعنی استواء کی کیفیت کے بارے میں، اور ان کا کہنا: ’’معلوم‘‘ اور یہ امام مالک رحمہ اللہ [2] کے جواب میں ثابت ہے اور رہا وہ جس کے بعض بدعتی دل دادہ ہیں کہ وہ لفظ ’’مذکور‘‘ ہے تو اس کی کوئی بنیاد نہیں، جیسا کہ میں نے اسے ’’مختصر العلو‘‘ (ص۱۴۲) میں بیان کیا ہے۔‘‘
ہمارے شیخ نے ’’مختصر العلو‘‘ (ص۴۸۔۴۹) کے مقدمے میں فرمایا:
ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’’التدمریۃ‘‘ (ص۲۹ طبع المکتب الاسلامی) میں فرمایا:
’’صفات کے بارے میں قول` ذات کے بارے میں قول کی طرح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ ایسی ذات ہے کہ اس کی طرح کوئی چیز نہیں، اس کی ذات میں نہ اس کی صفات میں اور نہ اس کے افعال میں، پس جب اس کی ذات حقیقت ہے وہ کسی اور ذات کے مشابہ نہیں، پس ذات صفات حقیقی سے متصف ہے وہ صفات کے مشابہ نہیں۔‘‘
جب سائل کہے: وہ عرش پر کس طرح مستوی ہوا؟
[1] اس سوال میں اللہ جل وعلا کی باقی صفات کی کیفیت کے متعلق سوال کرنا بھی داخل ہے۔ اور اسی کی طرف ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اشارہ کیا ہے، انہوں نے ’’صحیح الترغیب‘‘ (۱/۵۴۵۔۵۴۶) میں حدیث رقم (۹۱۵) کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا، اور اس حدیث کی نص یہ ہے: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرے بندے خرچ کر تجھ پر خرچ کیا جائے گا… اور فرمایا…: اللہ کا ہاتھ بھرا ہوا ہے رات اور دن کی بہت زیادہ سخاوت اسے کم نہیں کرتی…‘‘ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’یَدُ اللّٰہِ‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: حافظ رحمہ اللہ نے اس شخص کی اس کے ذریعے گرفت کی ہے جس نے یہاں ’’ہاتھ‘‘ کی ’’نعمت‘‘ سے تفسیر کی ہے اور جس نے اس (ہاتھ) کی ’’خزانوں‘‘ سے تفسیر کی ہے وہ بہت دور نکل گیا اور کہا: ہاتھ کا خزانوں پر اطلاق اس کے ان پر تصرف کے لیے ہوگا، اور ہمارے شیخ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’سحاء اللیل والنھار‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ہم اس پر اس کی حقیقت پر ایمان لاتے ہیں جیسے اس کی شان کے لائق ہے اس کی کیفیت کے بارے میں اس کی دیگر صفات کی طرح بحث و تحقیق نہیں کی جائے گی.
[2] وہ اسی طرح ربیعہ الرأی سے بھی منقول ہے ان کی رائے بھی یہی ہے، دیکھئے: ’’مختصر العلو‘‘ (ص۴۸۔۴۹، ۱۳۲) اور ’’التنکیل‘‘ (ص۳۲۵)، ط: المکتب الاسلامی.