کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 155
ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: …’’پھر موت کا فرشتہ [1] آتا ہے…‘‘ کی ’’احکام الجنائز‘‘ (ص۱۹۹، ۳۱۸) میں تشریح کرتے ہوئے فرمایا: کتاب و سنت میں اس کا نام یہ (ملک الموت) ہے، رہا اس کا عزرائیل نام رکھنا تو یہ ایسے امور میں سے ہے جس کی کوئی بنیاد نہیں، حالانکہ لوگوں کے پاس وہ اسی نام (عزرائیل) سے مشہور ہے، ہوسکتا ہے وہ اسرائیلیات میں سے ہو۔ ۴: یہ کہنا کہ حدیث آحاد اسلامی عقائد میں حجت نہیں اگرچہ وہ شرعی احکام[2] میں حجت ہے یا دلیل لینے کے حوالے سے آحاد اور متواتر روایات میں فرق کرنا ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے اپنے رسالے ’’وجوب الأخذ بحدیث الآحاد‘‘ میں بیس طرح سے اس دعوے کا ردّ کیا ہے اور اس پر اعتراض کیا ہے، ہم ایک ہی صورت بیان کرنے پر اکتفا کریں گے، جو مزید و تفصیل کا طالب ہو تو وہ جناب شیخ کے دو رسالوں ’’وجوب الأخذ بحدیث الآحاد‘‘ اور ’’الحدیث حجۃ بنفسہ‘‘ کا مطالعہ کرے۔ شیخ رحمہ اللہ نے اپنے رسالے ’’وجوب الأخذ بحدیث الآحاد‘‘ (ص۷۔۸ ط: مکتبہ اسلامیہ) میں فرمایا: ان میں سے بعض کا یہ موقف ہے کہ عقیدہ صرف قطعی دلیل جیسے کوئی آیت یا وہ متواتر حدیث جس کا تواتر حقیقی ہو، سے ثابت ہوتا ہے، اگر یہ دلیل ہو اس میں تاویل کا احتمال نہ ہو، اور دعویٰ کیا کہ یہ ان مسائل میں سے ہے جس پر علمائے اصول کے ہاں اتفاق کیا گیا ہے اور یہ کہ احادیث آحاد علم[3] فائدہ پہنچاتی ہیں نہ ان سے عقیدہ ثابت ہوتا ہے! [4] میں کہتا ہوں: یہ قول، اگرچہ ہمیں معلوم ہے کہ اسے متقدمین علمائے کلام میں سے کسی نے کہا ہے، تو یہ کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے۔ وجہ اوّل…: یہ کسی بدعتی شخص کا قول ہے، اس کی روشن شریعت اسلامی میں کوئی بنیاد نہیں، وہ قرآن کی ہدایت
[1] براء بن عازب کی طویل روایت کا ایک ٹکڑا، ’’احکام الجنائز‘‘ (ص۲۰۲) پر تفصیل دیکھیں. [2] ہمارے شیخ نے ’’وجوب الأخذ بحدیث الآحاد‘‘ (ص۳۔۴) کے مقدمے میں فرمایا: قدیم وجدید بہت سے علمائے اسلام اور محدثین نے اس شاذ رائے کی تردید میں قلم اٹھایا ہے۔ ان اہم ترین تردیدوں میں سے وہ تردید بھی ہے جو علامہ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے مختصر الصواعق المرسلۃ اور عظیم امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی عظیم کتاب الاحکام فی اصول الاحکام میں لکھی ہے. [3] میں نے کہا: ان کے نزدیک اس کا معنی یہ ہے کہ ممکن ہے کہ وہ کذب ہو یا خطا ہو! (منہ). [4] یہ جاننا ضروری ہے کہ حدیث آحاد سے مراد صحیح حدیث ہے، خواہ وہ کئی صحیح طرق سے آئی ہو، لیکن وہ درجہ تواتر کو نہ پہنچے۔ تو وہ اس جیسی حدیث کو ردّ کرتے ہیں اور وہ اسے عقیدے میں قبول نہیں کرتے، اس موضوع کے متعلق حدیث کی اہم تعریفات جاننے کے لیے ہمارے سابقہ رسالے کا مقدمہ ’’الحدیث حجۃ بنفسہ‘‘ کا مطالعہ کریں۔ (منہ).