کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 144
سے ہیں، کیونکہ وہ اس طرف پہنچاتے ہیں جو نصوص کے ساتھ مشروع ہیں جیسا کہ بالکل واضح ہے، پس وہ کسی چیز میں بھی بدعت کے ضمن میں سے نہیں، یہ اس کے خلاف ہے جو وہ گمان کرتے ہیں۔ ۵… حدیث: ’’مَنْ سَنَّ فِی الْاِسْلَامِ سُنَّۃً حَسَنَۃً…‘‘ [1] کی تشریح اس حدیث میں اس شخص کا ردّ بھی ہے جو یہ کہتا ہے کہ ’’اسلام میں بدعت حسنہ بھی ہے۔‘‘ ہمارے شیخ رحمہ اللہ نے ’’مختصر صحیح مسلم‘‘ (رقم ۵۳۳) کے حاشیے میں فرمایا: اس نے مسلمانوں میں ایک راستہ کھولا ہے، اس نے ان (مسلمانوں) کو یہاں تک پہنچایا ہے کہ وہ سنت حسنہ کریں جبکہ دین نے اس سے روکا ہے، یہ وہ صحیح معنی ہے جس کا لغت اور سیاقِ حدیث تقاضا کرتا ہے۔ اور رہی اس کی تفسیر کہ ’’جس نے اسلام میں سنت حسنہ جاری کی‘‘ جیسا کہ متاخرین کے ہاں مشہور ہے اور اسی کی وجہ سے انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’ہر گمراہی کا انجام جہنم ہے۔‘‘[2] کے عموم کی تخصیص کی ہے اور یہ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف معنوی نسبت کی گئی ہے یہ بہت ہی بری ہے، پس انصاری نے اس حدیث میں جو کچھ کیا ہے وہ ان کا صدقہ کی ابتدا کرنا ہے، اور وہ نص کے حوالے سے مشروع ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مفہوم میں اسے تلاوت کیا ہے، تو پھر اس انصاری کے فعل میں بدعت کہاں ہے، کہ کہا جائے کہ انہوں نے بدعت حسنہ کا ارتکاب کیا اور حدیث کو اس پر محمول کیا جائے؟! ہمارے شیخ علامہ الالبانی رحمہ اللہ نے ’’احکام الجنائز‘‘ (ص۲۲۶) میں فرمایا: تنبیہ:… بعض بدعتی اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: ’’جس نے اسلام میں سنت حسنہ جاری کی‘‘ سے بدعات کے لیے اپنی مزعوم تقسیم پر استدلال کرتے ہیں، کہ ان (بدعات) میں سے کوئی حسن ہے اور کوئی سیۂ!! اور وہ باطل تقسیم پر فاسد استدلال ہے، جیسا کہ دیکھنے والا حدیث کے شانِ ورود[3] میں اسے ملاحظہ کرسکتا ہے۔ وہ اسے چھپاتے ہیں اور اسے ذکر نہیں کرتے۔ یہ حدیث تو سنتیں زندہ کرنے پر ترغیب کے بارے میں ہے نہ کہ بدعات جاری کرنے کی ترغیب کے بارے میں۔ تردید کی دوسری وجہ: وہ یہ کہ اگر ہم تسلیم کرلیں کہ اس حدیث میں سنت مذکورہ سے بدعت کا قصد کیا ہے، تو ہر پہلی کو حسن کے ساتھ اور دوسری کو قبح کے ساتھ موصوف کیا جائے گا! اور اہل السنہ کے نزدیک یہ بات معلوم ہے کہ حسن و قبح کو کتاب و سنت کی طرف لوٹایا جائے گا، جو کہ معتزلہ اور ان کی حمایت کرنے والے لوگوں کے موقف کے
[1] ’’أحکام الجنائز‘‘ (ص۲۲۵) میں اس کی تخریج دیکھیں، وہاں اس کی روایات، اس کے الفاظ اور اس کا سبب مذکور ہے. [2] اصل میں بھی اسی طرح ہے، شاید کہ درست اس طرح ہو: ’’وکل بدعۃ ضلالۃ۔‘‘واللہ اعلم. [3] قرآنی آیات میں اسبابِ نزول کے لیے ’’شانِ نزول‘‘ کے الفاظ کہے جاتے ہیں جبکہ حدیث کے لیے ’شانِ ورود‘ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ یعنی کیا موقع ومحل تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ فرمان جاری کیا۔ (شہباز حسن).