کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 141
’’یہ صحیح ہے کہ اجتہاد کی اہلیت شرط اوّل ہے۔ پس رہی جاہل شخص کی تقلید تو وہ ہمارے ہاں صحیح ہے، شافعی کے ہاں نہیں۔‘‘
میں نے کہا: غور کرو کہ انہوں نے قاضی مقلد کو کس طرح جاہل کے نام سے موسوم کیا ہے، تو جب یہ ان کی حالت ہو اور علم میں ان کے اعتراف کے ساتھ ان کا یہ مقام و مرتبہ ہو، تو پھر تم میرے ساتھ مل کر ان بعض ہم عصر مقلدین سے تعجب کیوں نہیں کرتے، وہ کس طرح ان حدود و قیود سے نکلتے ہیں جنھیں انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے اور انہیں مذہب کے طور پر اپنے لیے پسند کیا ہے، وہ ان سے الگ ہونے کے لیے کس طرح کوشش کرتے ہیں، ظاہر یہ کرتے ہیں کہ وہ اہل علم میں سے ہیں، وہ اس کے ذریعے صرف ان بدعتوں اور گمراہیوں کی حمایت کرنا چاہتے ہیں جن پر عام لوگ ہیں، کیونکہ وہ اسی طرح مطلق اجتہاد کرنے والے مجتہدین میں سے ہوجاتے ہیں، وہ ایسے افکار و آراء اور تاویلات پیش کرتے ہیں جو ائمہ مجتہدین میں سے کسی نے نہیں کہی ہوتیں، وہ یہ معرفت حق کے لیے نہیں کرتے، بلکہ عام لوگوں سے موافقت کے لیے کرتے ہیں! اور رہی وہ چیز جو سنت پر اور اس پر عمل سے تعلق رکھتی ہے جو شریعت کی کسی بھی فرع سے متعلق ہو تو وہاں وہ بڑوں کی آراء پر جم جاتے ہیں اور وہ اپنے آپ کو سنت کی خاطر ان (آراء) کی مخالفت کرنے کی اجازت نہیں دیتے، خواہ وہ سنت ان (آراء) کے صریح خلاف ہو، یہ کیوں ہے؟ اس لیے کہ وہ مقلد ہیں! تو پھر تم ان بدعات کو ترک کرنے میں مقلد کیوں نہ بنے جنھیں تمھارے اسلاف نہیں جانتے تھے، جو ان کے لیے کافی تھا وہ تمھارے لیے بھی کافی ہونا چاہیے، تم نے اس چیز کو کیوں حسن قرار دیا جسے انہوں نے حسن قرار نہیں دیا کیونکہ یہ اجتہاد تمھاری طرف سے ہے، اور تم اپنے اوپر اس کا دروازہ بند کرچکے ہو؟ بلکہ یہ دین میں وہ شریعت سازی ہے جس کی رب العالمین نے اجازت نہیں دی:
﴿اَمْ لَہُمْ شُرَکَآئُ شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہِ اللّٰہُ﴾ (الشورٰی: ۲۱)
’’کیا ان کے کچھ شریک ہیں کہ انہوں نے دین سے ان کے لیے ایسی چیزیں مشروع قرار دیں جن کے متعلق اللہ نے اجازت نہیں دی۔‘‘
اور امام شافعی رحمہ اللہ اپنے مشہور قول کے ذریعے اس طرف اشارہ فرماتے ہیں:
’’مَنِ اسْتَحْسَنَ فَقَدْ شَرَعَ۔‘‘[1]
’’جس نے (دین کے حوالے سے کسی کام کو اپنی مرضی سے) اچھا سمجھا تو اس نے شریعت سازی کی۔‘‘
[1] اس مشہور مقولے کی نسبت امام شافعی رحمہ اللہ کی طرف ہے، لیکن العطار نے ’’حاشیہ علی جمع الجوامع‘‘ (۲/۳۵۹) میں بیان کیا:
’’یہ عبارت امام شافعی رحمہ اللہ کے حوالے سے مشہور ہے اور الغزالی نے ’’منخولہ‘‘ (ص۳۷۴) وغیرہ پر اسے نقل کیا، لیکن مصنف نے ’’الاشباہ والنظائر‘‘ میں بیان کیا: میں نے ابھی تک اسے نص کے طور پر ان کے کلام سے نہیں پایا، لیکن میں نے ’’الام‘‘
میں یہ پایا کہ جو ’استحسان‘ کا قائل ہوا اس نے بہت بڑی (غلط) بات کی…‘‘ انتہیٰ
میں نے کہا: امام شافعی رحمہ اللہ نے ’’الرسالہ‘‘ (ص۵۰۳) میں ایک مستقل باب اور ’’الام‘‘ (۷/۳۰۹) میں ایک ’کتاب‘ مقرر کی ہے جس میں انہوں نے استحسان کا ابطال کیا ہے اور اسے خواہش پرستی اور گمراہی قرار دیا ہے اور انہوں نے کہا: ’’استحسان تو ایک تلذذ (لطف اندوز ہونا) ہے۔‘‘ اصولیین میں سے جس جس نے استحسان پر بحث کی ہے اس نے سابقہ عبارت کو شافعی کی طرف منسوب کیا ہے۔ دیکھئے: مثلاً ’’شرح التوضیح علی التنقیح‘‘ (۳/۱)، ’’نہایۃ السول‘‘ (۴/۴۰۳)، ’’کشف الأسرار‘‘ (۲/۱۶۸)، ’’مختصر المنتہی مع شرح العضد‘‘ (۲/۲۸۸)، ’’الباعث علی إنکار البدع والحوادث‘‘ (ص: ۵۰۔ میری تحقیق کے ساتھ) لأبی شامۃ، ’’الاعتصام‘‘ (۳/۶۲ میری تحقیق کے ساتھ)۔جلال الدین محلی نے ’’جمع الجوامع‘‘ (۲/۲۹۵) میں فرمایا: ’’شَرَّعَ‘‘ راء پر شد اور العطار نے اس کے حاشیے (۲/۳۹۵) پر اس پر تنقید و تبصرہ کیا تو فرمایا:
’’الزرکشی وغیرہ نے راء پر شد کے متعلق زور دے کر کہا، اور انہوں نے کہا: ’’العراقی نے کہا: اس (راء) پر شد کے متعلق جزم کا کوئی معنی نہیں، مجھے جو یاد ہے وہ تخفیف کے ساتھ (راء پر شد نہیں)، نصب شریعہ میں کہا جاتا ہے: ’’شَرَعَ‘‘ تخفیف کے ساتھ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوحًا﴾ (الشوری:۱۳).