کتاب: بدعت کا انسائکلوپیڈیا(قاموس البدع) - صفحہ 112
((إِذَا حَدَّثَکُمْ أَہْلُ الْکِتَابِ فَلَا تُصَدِّقُوْہُمْ وَلَا تُکَذِّبُوْہُمْ۔))[1]
’’جب اہل کتاب تمہیں بیان کریں تو تم ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب۔‘‘
آپ نے ان سے روایت کرنے کے بارے میں رخصت دی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی تصدیق و تکذیب سے منع فرمایا ہے، اگر ان سے مطلق تحدیث میں کوئی فائدہ نہ ہوتا تو آپ اس کے متعلق اجازت دیتے نہ حکم فرماتے، اگر صرف روایت کرنے کے ساتھ ان کی تصدیق جائز ہوتی تو آپ ان کی تصدیق سے منع نہ فرماتے، پس دل اسی چیز سے فائدہ اٹھاتے ہیں جس کے سچا ہونے کا وہ کئی جگہوں پر سوچتے ہیں۔
فضائل کی احادیث کے ساتھ مقدار مقرر کرنا اور حد بندی کرنا جائز نہیں
جب تم نے مقدار مقرر کرنے اور حد بندی کرنے‘‘ کے حوالے سے فضائل کی ضعیف احادیث کو لیا، جیسے نماز کو کسی وقتِ معین یا قراءت معینہ کے ساتھ یا صفت معینہ کے ساتھ مقید و محدود کرنا جائز نہیں، کیونکہ وصف معین کے لیے یہ استحباب شرعی دلیل سے ثابت نہیں ہوا، اس کے برعکس اگر اس میں روایت پر عمل کیا جائے: ’’جو شخص بازار میں داخل ہو اور وہ یہ پڑھے: ۔لا الہ الا اللہ… تو اسے اتنا اور اتنا اجر ملے گا۔‘‘ [2] بازار میں اللہ کا ذکر کرنا مستحب ہے، کیونکہ ایسا کرنے والا غافلین کے درمیان اللہ کا ذکر کرنے والا ہے، جیسا کہ معروف حدیث میں وارد ہے:
’’غافلین میں اللہ کا ذکر کرنے والا، خشک درخت کے درمیان سبز درخت کے مانند ہے۔‘‘[3]
جہاں تک تعلق ہے اس میں مروی ثواب کی مقدار کا تو اس کا ثبوت اور عدم ثبوت مضر نہیں، اسی طرح کی ایک روایت ترمذی ہے:
’’جسے اللہ کی طرف سے کوئی چیز پہنچے اس میں فضیلت ہو اور وہ اس فضیلت کی امید پر اس پر عمل کرلے اللہ اسے وہ چیز عطا کردیتا ہے خواہ وہ اس طرح نہ ہو۔‘‘[4]
[1] بخاری، التوحید، ما یجوز من تفسیر التوراۃ وغیرہا من کتب اللہ بالعبرانیۃ وغیرہا …، ح: ۷۵۴۲۔ الفاظ لا تصدقوا اہل الکتاب ولا تکذبوہم ہیں۔ (شبہاز حسن).
[2] میں کہتا ہوں: اسے ترمذی نے ’غریب‘ کہا ہے، لیکن اس کے اور بھی کئی طرق ہیں جن سے یہ حسن درجے کی حدیث بن جاتی ہے۔ جیسا کہ میں نے الکلم الطیب (ح: ۲۲۹) پر اپنی تعلیقات میں ذکر کیا ہے۔ اس کی … اسناد کو منذری نے حسن کہا ہے جیسا کہ ’الصحیح‘ ۱۶۔ البیوع، ۳۔ باب، ح:۱) میں اس کا تذکرہ آئے گا۔ (منہ).
[3] ’’الضعیف‘‘ (۱۶۔ البیوع، ۳، باب) میں اس کا بیان آئے گا۔ (منہ).
[4] میں کہتا ہوں: اسے ترمذی کی طرف منسوب کرنا وہم یا قلمی لغزش ہے۔ یہ مذکورہ بالا مصدر میں تین طرق سے مروی ہے اور یہ سب کے سب موضوع طرق ہیں۔ دیکھیں (رقم: ۴۵۱۔۴۵۳)اس (مصدر) سے ان کی مراد ضعیف الترغیب والترہیب ہے۔ اور ابن الجوزی نے اسے ’’الموضوعات‘‘ میں ذکر کیا ہے۔ اور سیوطی نے ان سے موافقت کی ہے۔ (منہ).